• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مومنہ حنیف

بلاشبہ تعلیم انسان کو شعور اور معاشرتی آداب سکھا کر معاشرے میں رہنے کے قابل بناتی ہے۔ یہ تعلیم ہی ہےجس نے ارسطو کو فلسفے کا بادشاہ بنادیا،جس نے سائنس کو ’نیوٹن‘ جیسا شخص دیا۔ وہی تعلیم ابولکلام آزاد، علامہ اقبال اور قائداعظم کے عروج وکمال کا سبب رہی،تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ صرف وہی اقوام دنیا میں اپنا وجود بر قرار رکھ سکی ہیں، جنہوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا اور اپنی نئی نسل کو اس زیور سے آراستہ کیا ۔موجودہ دور میں تعلیم اور ہنر کو کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی میں جو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ 

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہی میں نہیں ہمارے ملک میں بھی ماضی میں اس کی نہایت واضح اور روشن مثال ہیں۔جہاں تعلیم کے دوران ہی بچوں کی صلاحیتوں اور رجحانات کو بھانپ کر بچوں کو آگے بڑھایا جاتا ہے اور وہ اپنے رجحانات کے مطابق پیشہ اختیار کرتے ہیں اور یوں معاشرے کی ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتے ہیں ۔ لیکن اب ہم صرف دھرتی پر ” ڈگری شدہ ‘‘انسانوں کے بوجھ میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ یہ تمام ڈگری شدہ نوجوان ملک کو ایک روپے تک کی پروڈکٹ دینے کے قابل نہیں ہیں۔

ہمارے ملک میں کریئر گائیڈنس کے لیے باقاعدہ کوششیں ابھی تک شروع نہیں ہوئی ہیں۔ طلباء کریئر کا انتخاب والدین، رشتے دار، اساتذہ اور دوستوں کی مرضی سے کرتے ہیں یا پھر میڈیا کی تشہیر کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی شعبہ اچھا یا برا نہیں ہوتا، اصل اہمیت چناؤ کی ہوتی ہے ۔ حالات پر ہی نہیں اپنے مستقبل پر بھی نظر رکھتے ہوئےنوجوان ایسے شعبے کا انتخاب کریں جو ان کی ذہانت، قابلیت اور ذوق و شوق سے ہم آہنگ ہو تو یقینی بات ہے کہ وہ اس پیشے میں نہ صرف ترقی کریں گے بلکہ اس میں زیادہ معاشی فوائد بھی حاصل کر پائیں گے۔ 

آج کل نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ کیا ہنرمند ہونا ایک ڈگری یافتہ ہونے سے بہتر ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی کی اس دوڑ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی بھی نوجوان کے پاس کسی خاص شعبے میں مہارت کی ڈگری ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مہارت نہ ہو تو ڈگری بغیر پانی کے گلاس کی طرح خالی ہوگی۔ مہارت اور ڈگری ایک بہترین زندگی گزارنے کے لیے انتہائی اہم ہوتا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی سے کسی خاص شعبے میں تعلیم یافتہ ہونے کی سند رکھنے والی ڈگری ماہرین تعلیم کی طرف سے جاری کردہ محض ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے، جبکہ ہر ہنر مند فرد ڈگری یافتہ نہیں ہوتا، پھر بھی بہت سارے کاموں میں ماہر ہوتا ہے۔ 

اسی طرح کوئی بھی ڈگری ہولڈر ہمیشہ عملی طور پر ماہر نہیں ہوتا ہے، دیکھا جائے تو اس وقت سب سے زیادہ تعلیمی ڈگریاں رکھنے والے افراد بے روزگار ہیں اور کم تعلیم یافتہ افراد جن کے پاس کسی نوعیت کا ہنر یا مہارت ہے تو وہ برسرِ روزگار ہیں۔ کارخانہ دار کہتے ہیں انہیں اعلی تعلیم کی بجائے ہنر مند ورکرز کی تلاش رہتی ہے۔مہارت کی تربیت ترقی کا راستہ ہے۔اس وقت دنیا کی نام ور ٹیکنالوجی کمپنیوں ، اعلیٰ درجے کے اداروں میں ملازمت کے لیے باضابطہ یا روایتی تعلیمی نظام کو پسِ پشت رکھ دیا گیا ہے، یہاں روایتی ڈگری رکھنے والے افراد کی نسبت ایسے لوگوں کو نوکری کے لیے پسند کیا جاتا ہے جو ٹیکنالوجی کے مخصوص شعبہ جات میں مہارت رکھتے ہیں۔

ہنر مند ہونے کے مواقع بھی وسیع ہو گئے ہیں۔ موبائل ریپیئرنگ، انٹرنیٹ بلاگنگ، ٹرانسلیشن، کمپیوٹر ہارڈ ویئر ریپئرنگ وغیرہ کے ہنر میں یکتا ہو کر اچھی خاصی آمدنی حاصل کی جاسکتی ہے، ساتھ ساتھ اپنی تعلیمی قابلیت میں بھی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ڈیٹا اینالیٹکس، مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ اور روبوٹکس جیسے ٹیکنالوجی کے شعبے میں بڑھتی ہوئی تبدیلی کے ساتھ ، دنیا اس نوکری کے لیے کسی ماہر فرد کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوںکو سوچنے پر مجبور کیا جائے کہ تعلیم کے ساتھ ہنر وصلاحیت پر توجہ دیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کے طول وعرض میں تعلیمی ادارے تعلیم تو دے رہے ہیں، مگر صلاحیت و قابلیت سے کوسوں دور ہیں،یوں ایسی قوم پروان چڑھ رہی ہے، جس کے پاس نہ روزگار ہے نہ کوئی مستقبل ہے اور نہ علم وفن کے حوالے سے آگے بڑھنے کے مواقع میسر ہیں۔ یہ انتہائی تشویشناک پہلو ہے۔ ہمارے نوجوان فنون کی ڈگریاں لے کر گھوم رہے ہیں، مگرپھر بھی بے روز گاری کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔

اس جدید دور میں تعلیم برائے تعلیم کا فلسفہ ناپید ہوتا جارہا ہے، بلکہ مکمل تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر و صلاحیت کے جوہر سے بھی آشنا ہونا حددرجہ ضروری ہوچکا ہے۔موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اس دور کی سب سے بڑی ضرورت فنی مہارت اور صنعتی پیشہ ورانہ تعلیم ہے ۔ ہروہ ملک تیزی سے ترقی کر رہا ہے جس نے فنی مہارت حاصل کی ہے۔ کسی ملک میں فنی ماہرین کی تعداد جس قدر زیادہ ہو، وہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی فنی تعلیم کی اشد ضرورت ہے۔ہمارے ہا ں ٹیکنیکل اور ووکیشنل شعبے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی ۔ صنعت کا ہر سیکٹر غیر ہنرمند لیبر فورس کا رونا رو رہا ہے۔ 

پیداواری صلاحیّت بڑھانے کے لیے ہر فیلڈ میں ہنرمندی اور مہارت کی ضرورت ہے یعنی زراعت،تعمیرات،سولر انرجی، صحت، آئی ٹی وغیرہ۔ بلاشبہ مقابلے کے اس دور میں دنیا کا مقابلہ کرنا ہے توفنّی تعلیم و تربیّت کے بغیرممکن ہی نہیں۔کار پینٹر، آٹو الیکٹریشن،بلیک اسمتھ ، آٹو فٹر،مولڈر، ڈیزل میکینک ،ویلڈر، پروسیس پلانٹ آپریٹر، ا سٹیل فیبریکیٹر ، ٹیکنیشن انسٹرومنٹ، الیکٹرونکس ، الیکٹریکل و میکینکل ٹیکنیشن، بوائلر اٹینڈنٹ اورپائپ فٹر وغیرہ ایسے شعبے ہیں، جن میں ہنر مند ہونے کے مواقع موجودہیں۔اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ صرف ڈگری کے حصول سے ہی اپنےروشن مستقبل کا خواب پورا ہونے کا انتظار کرتے ہیں یا ہنر مندہو کر اپنی راہیں خود متعین کرتے ہیں۔

متوجہ ہوں!

قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔

ہمارا پتا ہے:

صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔

تازہ ترین