• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم شفیق ، ملتان

کسی زمانے میں ایک ملک کے باشندے بہت کاہل تھے۔ وہ کوئی کام کاج نہیں کرتے تھے، دن بھر سونا پانے کی امید میں زمین کھودتے تاکہ مالامال ہوجائیں۔ برسوں تک وہ اسی طرح زمین کھودتے رہے لیکن انہیں کچھ نہ مل سکا۔ یہی وجہ تھی کہ وہاں کے باشندے بہت پریشان رہتے کیوں کہ وہاں کا بادشاہ دولت چاہتا تھا اور دولت نہ ملنے کے سبب اس کا مزاج چڑچڑا اور غصیلا ہوگیا تھا۔ایک دن وہاں سے ایک نوجوان کا گزر ہوا جو بہت ہنس مکھ اور ذہین تھا۔ وہ اسی راستے سے ایک گیت گاتا جا رہا تھا جہاں سونا حاصل کرنے کے لئے لوگ زمین کھود رہے تھے۔ 

جب ان لوگوں نے اسے دیکھا تو بولے، ’’گانا مت گاؤ۔ ہمارا بادشاہ بہت ہی غصیلا ہے وہ تمہیں قتل کردا دے گا‘‘۔نوجوان ہنس کربولا: ’’مجھے اس کی پروا نہیں ہے۔ لیکن تم مجھے اپنے بادشاہ کے پاس لے چلو‘‘۔ لوگوں نے زمین کی کھدائی بند کردی اور اس آدمی کو لے کربادشاہ کے پاس لے جانےلگے۔ راستے میں انہوں نےاس سے پوچھا ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘’’مزدور،‘‘ اس آدمی نے جواب دیا۔’’تم گیت کیوں گا رہے تھے؟‘‘ اس نے جواب دیا’’کیوں کہ میں بہت خوش ہوں‘‘۔انہوں نے پوچھا،’’تم خوش کیوں ہو؟‘‘ اس نے بتایا’’ میرے پاس بہت سونا ہے‘‘اتنا سنتے ہی سب لوگ خوشی سے اچھل پڑے۔ انہوں نے بادشاہ کے پاس لے جاکر اسے ساری بات بتا دی۔

بادشاہ نے اس آدمی سے پوچھا، ’’کیا یہ سچ ہے کہ تمہارے پاس بہت سارا سوناہے؟‘‘’’ہاں،‘‘ نوجوان نے جواب دیا’’ میرے پاس سونے کی سات بوریاں ہیں‘‘۔ بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس آدمی کے ساتھ جاکر سونے کی ساتوں بوریاں لے آؤ۔ بادشاہ کا حکم سن کرنوجوان نے کہا، ’’سونے کولانے میں کافی وقت لگے گا کیونکہ وہ ایک ایسے غارمیں رکھا ہوا ہے جس کی دیکھ بھال سات دیو کر رہے ہیں۔ آپ اپنے ان آدمیوں کو میرے ساتھ ایک سال تک رہنے کی اجازت دیں، اس عرصہ میں ہم وہ سونا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘‘۔

نوجوان کی بات ماننے کے علاوہ بادشاہ کے پاس اورکوئی چارہ نہ تھا۔ اس لئے اس نے اپنے بہت سے آدمی گھوڑے اور بیل اس نوجوان کے ساتھ بھیج دیئے اور جاتے وقت اس کو ہدایت کی، ’’اگر تم سال کے آخرتک سونا لانے میں ناکام رہے تو تمہارا سر دھڑ سے الگ کر دیا جائے گا‘‘۔ اس نوجوان نے ان لوگوں کو سلطنت کی زرخیز زمین جوتنے کے لئے کہا۔ جب زمین تیار ہوگئی تو اس نےاس میں گیہوں کے بیج بوئے۔ ایک سال بعد فصل تیار ہوگئی تو اس نے اس کی کٹائی کرائی جس کے بعد اس کے پاس منوں گندم جمع ہوگئی، جسے گھوڑوں پرلدوا کر وہ بادشاہ کے سپاہیوں کو ساتھ لے کرمحل کی طرف روانہ ہوا۔

چلتے چلتے وہ لوگ ایسے مقام پر پہنچے جہاں قحط پڑا ہوا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کے باشندوں نے وہ سارا گیہوں ہاتھوں ہاتھ خرید لیا۔ اس کے بدلے میں اس نوجوان کو سونے کی سات بوریاں مل گئیں۔ جنہیں لے کر وہ بادشاہ کے دربارمیں پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر بادشاہ نے اس سے پوچھا،’’کیا تم سونا لے آئے؟‘‘نوجوان نے مسکرا کر جواب دیا، ’’جی ہاں!‘‘ میں نے ’’گیہوں بیچ کرسونا حاصل کیا ہے‘‘۔ اس کے ملازموں نے جب اسے پوری کہانی سنائی تو وہ بہت خوش ہوالیکن اسے اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا۔ 

اس نے اپنی رعایا کو کھیتی باڑی کرنے کا حکم دیا۔ کچھ سالوں بعد ہی ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہوا تو اس نے نوجوان کو دوبارہ اپنے دربار میں طلب کیا اور اس سے کہا، ’’ہم تمہارے بہت شکرگزار ہیں۔ تم نے ہمیں ایک نئی راہ دکھائی ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمارے ہی ساتھ رہو‘‘۔ نوجوان نے بادشاہ کی بات سن کر کہا کہ ’’اس دنیا میں ابھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو محنت کی عظمت کو نہیں سمجھتے ، مجھے ان کے پاس جاکرانہیں بھی راہ راست پر لانا ہے لہذا مجھے اجازت دیں مجھے افسوس ہے میں یہاں نہیں رک سکتا‘‘۔ بادشاہ نے نوجوان کو بے شمار تحفے تحائف دے کر رخصت کیا۔

تازہ ترین