کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف پاکستان سے چلے تو گئے ہیں مگر مشکلات ان کا پیچھا کررہی ہیں، جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے 73 سالہ مطیع الرحمٰن کو پھانسی بتارہی ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجدکی حکو مت 45 سال بعد بھی ماضی میں پھنسی ہوئی ہے، پانا ما لیکس کا معاملہ صرف سیاسی بن گیا ہے ، حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے اب صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے مزید کہا کہ قصور کے بعد اب سوات میں بھی بچوں سے زیادتی کا اسکینڈل سامنے آیا ہے، بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے گروہ کا سرغنہ ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا گیا ہے، یہ گروہ بچوں کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بناتا اوران کی تصاویر اور ویڈیو بناتا تھا، ملزم اب تک 17بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا اعتراف کرچکا ہے، والدین کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ ایسے درندے ہمارے آس پاس ہی ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار اور برطانوی ہائی کمشنر کی ملاقات میں اتفاق ہوگیا ہے کہ عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ کیس الگ الگ مگر ایک ساتھ چلیں گے، پاکستان اور برطا نیہ ان کیسوں پر ایک دوسرے سے مکمل تعاون کریں گے، پہلے برطانوی ٹیم پاکستان آئے گی پھر پاکستانی ٹیم برطانیہ جائے گی، عمران فاروق قتل کیس میں پاکستان چاہتا ہے کہ برطانیہ پاکستان میں گرفتار تینوں ملزمان لے جائے مگر برطانیہ صرف محسن علی سید کو لے جانے میں دلچسپی رکھتا ہے جس نے برطانوی سرزمین پر قتل جیسے جرم کا ارتکاب کیا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے امیر کی پھانسی پر تجزیہ کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے 73 سالہ مطیع الرحمٰن کو پھانسی بتارہی ہے کہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجدکی حکومت 45 سال بعد بھی ماضی میں پھنسی ہوئی ہے، بنگلہ دیشی وزیرقانون کا کہنا ہے کہ مطیع الرحمٰن کو 1971ء کے جنگی جرائم کے ارتکاب پر پھانسی دی گئی ہے، مطیع الرحمٰن کو جس جنگی جرائم کے ٹریبونل نے پھانسی دی ہے وہ اب تک دو درجن افراد کو مجرم قرار دے چکا ہے جس میں سے پانچ افراد کو پھانسی دی جاچکی ہے، جن افراد کو سزا دی گئی ہے ان سب کا تعلق وزیراعظم حسینہ واجد کی مخالف جماعتوں جماعت اسلامی اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے ہے۔پاناما لیکس کے حوالے سے تجزیہ کرتے ہوئے شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پاناما لیکس کا معاملہ صرف سیاسی بن گیا ہے ، حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے اب صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش ہورہی ہے، پاناما لیکس کے معاملہ پر حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے جواب مانگ رہی ہیں ، سوال تو سب پوچھ رہے ہیں مگر جواب دینے کو کوئی تیار نہیں ہے، اس صورتحال میں واضح ہورہا ہے کہ پاناما لیکس کا معاملہ کسی طرف جا نہیں رہا ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ اپوزیشن نے وزیراعظم سے سات سوالوں کے جواب مانگے تو مسلم لیگ ن کے رہنما منظر عام پر آئے، انہوں نے اپوزیشن کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے اپوزیشن سے ہی سات سوالات کرد یئے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ علی حیدر گیلانی کی افغانستان سے بازیابی نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر خطرہ پل رہا ہے، پاکستان اس خطرے کا ادراک کررہا ہے لیکن افغا نستا ن اس خطرے کو دور کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے، طورخم بارڈر پر باڑ لگانے کی پاکستانی کوششوں میں افغان فورسز آڑے آگئی ہیں جس کی وجہ سے طورخم بارڈر دو دن سے بند ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پاکستان سے تو چلے گئے ہیں مگر مشکلات ان کا پیچھا کررہی ہیں، حکومت نے پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی مگر ان کی واپسی مشکل دکھائی دے رہی ہے کیونکہ سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کو مفرور اشتہاری ملزم قرار دیدیا ہے اور استغاثہ سے ملزم کی جائیداد کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں، خصوصی عدالت نے ساتھ حکم دیا کہ مفرور ملزم پرویز مشرف کے کراچی اور اسلام آباد کے گھروں اور عدالت کے باہر اشتہار لگایا جائے۔پاناما لیکس میں میڈیا مالکان کے نام آنے کے حوالے سے شاہزیب خانزادہ کا تجزیہ پاناما لیکس میں میڈیا مالکان کے نام آنے کے حوالے سے شاہزیب خانزادہ نے کہاکہ پاناما لیکس کی دن رات کوریج کرنے والے اور ساتھ ہی آف شور کمپنیاں رکھنے والے میڈیا مالکان بھی جوابدہی اور تحقیقات سے بالاتر نہیں ہیں،بہت سارے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے نام پاناما لیکس میں آئے ہیں، جس میڈیا ہاؤس کی ہم بات کررہے ہیں اس کا نام بھی پاناما لیکس میں شامل ہے اور جس میڈیا ہاؤس میں ہم کام کرتے ہیں ان کے مالکان کا نام بھی پاناما لیکس میں آیا ہے اور ان سب کو جواب دینے کی ضرورت ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ پاناما لیکس کی پہلی قسط آئی تو سب کو جنگ، دی نیوز اور جیو کے ذریعے ہی پتا چلا کہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف کا نام بھی پاناما لیکس میں ہے، بہت سے دوسرے میڈیا مالکان کی بات کی جائے تو اگر آپ ان کی میڈیا کوریج، اخبارات اور ویب سائٹس دیکھیں تو نام مٹے ہوئے نظر آئیں گے، ہم نے بھی اپنے پروگرام کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا کہ ہم سے سوال کیا جارہا ہے کہ اس چینل یا گروپ کے مالکان کا نام بھی آیا ہے تو اس کا بھی جواب دیا جانا چاہئے، صرف رپورٹ سے کام نہ چلے جواب دیا جائے اور سارا معاملہ سامنے رکھا جائے۔ شا ہز یب خانزادہ نے مزید کہا کہ جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف کا نام پاناما لیکس میں آنے کے حوالے سے ہم نے سوالات انتظامیہ کے آگے رکھے، پاناما لیکس کی پہلی قسط میں نام آیا تو جواب بھی آگیا، پہلے ہی دن چار اپریل کو جنگ اور دی نیوز میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف نے وضاحت بھی دی تھی لیکن اس کے بعد سوالات اٹھتے رہے، پاناما لیکس کی دوسری قسط آئی تو دوبارہ سوالات اٹھے، اس کے بعد چار مئی کو جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف نے آف شور کمپنیوں پر تحقیقات کیلئے خود کو پیش کردیا، چیف جسٹس آف پاکستان، چیئرمین ایف بی آر اور قومی احتساب بیورو کے نام چار مئی کو بھیجے گئے خط میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف کی جانب سے درخواست کی گئی ہے کہ اخبارات میں ان کا نام ایک آف شور کمپنی کے حوالے سے شایع کیا گیا ہے، اگرچہ یہ کمپنی کبھی بھی آپریشنل نہیں رہی اور نہ ہی اس کے ذریعے کوئی لین دین ہوا اور نہ ہی اس کا بینک اکاؤنٹ کھولا گیا۔ خط میں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جس طرح مناسب سمجھا جائے وہ پھر سے خود کو ہر معاملہ اور ہر قسم کی تحقیقات کیلئے پیش کرتے ہیں جس میں فارنزک آڈٹ اور ایگزامنیشن بھی شامل ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ چار مئی کو بھیجے گئے اس خط کے اگلے ہی روز متعلقہ اداروں سے موصول ہونے کی تصدیق بھی مل گئی تھی، خط میں کہا گیا ہے کہ یہ معاملہ اپریل میں سامنے آیا تھا اور عمرچیمہ کی جنگ اور دی نیوز کی شائع رپورٹ میں ان کا نام بھی شامل کیا گیا جس کی انہوں نے پہلے ہی آئی سی آئی جے کے پاکستان میں نمائندے عمرچیمہ کو وضاحت کردی تھی کہ یہ کمپنی تو بنائی گئی لیکن اس نے نہ تو کوئی کاروبار کیا اور نہ ہی اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ اور اثاثے ہیں، یہ وضاحت رپورٹ کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوگئی، اس ضمن میں عمرچیمہ کو آف شور کمپنی کے متعلق دستاویز بھی دکھائی گئی جن پر وہ مطمئن نظر آئے۔چیف جسٹس اور دوسرے اداروں کو خط لکھ دیا گیا ہے تو دوسرے اداروں کی ذمہ داری ہے کہ تحقیقات کریں، سچ عوام کے سامنے لائیں، جوبھی سچ سامنے آئے گا ہم اس پروگرام کے پلیٹ فارم سے عوام کے سامنے رکھیں گے، اگر گروپ کے ایڈیٹرانچیف نے خط لکھا ہے اور اپنی ذمہ داری پوری کی ہے تو اب اداروں کی ذمہ داری ہے کہ جو باتیں ان کی طرف سے کی گئی ہیں اس کی تحقیقات کریں۔آج اعتزاز احسن نے بھی اس حوالے سے کہا وہ بھی سن لیجئے۔ اعتزاز احسن کا کلپ: آج ہم نے ان کا مختصر سا خط اخبار میں دیکھا ہے، ویسے یہ ماننا بڑے گا کہ مختصر مگر جامع خط ہے، انہوں نے خود کو سیدھا سیدھا پیش کردیا ہے، ان کے کہنے کے مطابق ان کی کمپنی میں پیسے نہیں ہیں، ہم تو چاہتے ہیں کہ میاں نواز شریف بھی اسی طرح اپنے آپ کو پیش کردیں۔ دی نیوز کے تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کی گفتگو شاہزیب خانزادہ: عمر چیمہ آپ کی یہ پوری اسٹوری تھی، جب آپ اسٹوری کررہے تھے اور اسی گروپ کے ایڈیٹر انچیف کا نام سامنے آیا، ظاہر ہے ہر میڈیا پرسنالٹی کی، ہر صحافی کی، بطور اینکر ہماری، بطور صحافی آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ہم خود خبر نہ بنیں، خبر کے ساتھ انصاف کریں خود خبر نہ بنیں مگر جب ایڈیٹر انچیف کا نام آگیا تو آپ نے کیا رابطہ کیا، آپ کو کیا جواب ملا، نام لکھیں نہ لکھیں، جواب آپ کو اپنی تسلی کے مطابق ملا ، نہیں ملا، کیا لکھا، کیسے لکھا، عوام کو سچ بتایئے؟ عمر چیمہ: یہ بڑی چیلنجنگ صورتحال تھی، جب میں دوسرے لوگوں کی سرچ کررہا تھا تو شکیل صاحب کے بار ے میں بھی curious تھا، جب مجھے ایک کمپنی کا پتا چلا تو پھر اگلا چیلنج یہ تھا کہ میں کس طرح ان کو آگاہ کروں یا دوسروں کو کس طرح رپورٹ کروں گا اگر ان کو نہیں کروں گا، پھر میں نے انصار بھائی سے ڈسکس کیا، انہوں نے کہا کہ آپ کو اس بارے میں شکیل صاحب کو آگاہ کرنا چاہئے اور ان کا موقف مانگنا چاہئے، پھر میں نے ان کو سوالات ای میل کیے، انہوں نے پہلے مجھ سے فون پر بات کی، انہوں نے میری ساری بات سنی، انہوں نے کہا کہ آپ نے بہت اچھا کیا اور آپ کویہ کرنا چاہئے تھا، جس طرح سے آپ دوسر ے لوگوں کے بارے میں بات کررہے ہیں تو obviously میرے بارے میں ہے۔ لیکن جو ایک چیز ان کی دوسروں سے مختلف تھی جتنے لوگوں کو میں نے سوالات بھیجے، انہوں نے جواب کے علاوہ اپنے جواب کے ثبوت میں مجھے documents بھی دکھائے، جس میں یہ تھا کہ میں نے کمپنی قائم تو کی تھی لیکن جس مقصد کیلئے کی تھی، کوئی جوائنٹ وینچر کرنا چاہ رہے تھے، وہ مقصد پورا نہیں ہوسکا تو ہم نے کمپنی بعد میں disolve کردی، انہوں نے سپورٹ میں document دکھائے جس میں یہ تھا کہ نہ اس کا کوئی بینک اکاؤنٹ اوپن ہوا، نہ کوئی اور بزنس ہوا، وہ آفیشل ڈاکومنٹس تھے جو کلائنٹ سروس پرووائیڈر دیتے ہیں، ایک طرح سے مختلف قسم کا تجربہ تھا، نمبر ون، اپنے ایڈیٹر انچیف کو لکھنا، نمبر ٹو، ان کا میرے اس right کو recognize کرتے ہوئے reply کرنا اور نمبر تھری اپنی سپورٹ میں کہ جو چیز وہ کہہ رہے ہیں اس کی سپورٹ میں دستاویزات بھی پیش کرنا کہ آپ صرف میرے الفاظ پر یقین نہ رکھنا یہ ڈاکومنٹ بھی دیکھ لینا، اس سارے پراسس میں جو چوتھی چیز مددگار ثابت ہوئی جب دوسرے لوگوں نے جن لوگوں کو ہم نے سوالات بھیجے اور انہوں نے شکیل صاحب سے رابطہ کیا کہ ہمارے بارے میں رپورٹ کیا جارہا ہے تو انہوں نے کہا کہ میرے تو اپنے بار ے میں رپورٹ کیا جارہا ہے، میں نے اس کا جواب دے دیا ہے، آپ کو بھی چاہئے کہ سوالات کا جواب دیں، میں تو اپنا نام بھی نہیں رکوا رہا تو آپ کو بھی نہیں چاہئے، جب ہماری خبر چھپی تو اس میں شکیل صاحب کا نام چھپا، میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جتنے لوگ ابھی اس کو اس طریقے سے پیش کررہے ہیں جیسے کوئی بڑا انکشاف ہوا ہے، انہوں نے اس وقت خبر پڑھی تھی اور انہیں پتا تھا کہ شکیل صاحب کا نام ہے اور یہ پہلے ہی رپورٹ ہوچکا ہے۔ شاہزیب خانزادہ: بہت شکریہ۔ڈی پی او سوات سلیم مروت نے کہا کہ سوات پولیس نے بچوں سے زیادتی کا واقعہ رپورٹ ہوتے ہی فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے تین ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے، ان ملزمان نے 17بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہے، اگر زیادتی کا شکار بچے سامنے آئے تو ملزمان کیخلاف مزید ایف آئی آرز درج کریں گے،صحافیوں نے ہمیں بچوں سے زیادتی کی کچھ ویڈیوز اور تصاویر ہمیں دی ہیں جنہیں تحقیقات کا حصہ بنادیا گیا ہے۔