• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب بھی ستمبر کا مہینہ آتا ہے، میرے دل میں خیال آتا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر متحدومتفق ہو کر اپنے آپ سے جنگ کرنا ہو گی۔

1965 میں جب ’’ستم گر‘‘ نے ہمارے پاک وطن کے بدن پر کچوکے لگانے کی کوشش کی تو ہر پاکستانی سر پر کفن باندھ کر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گیا تھا بلکہ اگر یوں کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہو گا کہ یہ جنگ دراصل تمام پاکستانیوں کے جذبہ حب الوطنی نے لڑی تھی۔ مزدوروں، کلرکوں، افسروں، استادوں، شاعروں، اداکاروں، موسیقاروں، گلوکاروں، سیاست دانوں، ڈاکٹروں، انجینئروں اور صحافیوں نے اپنی بہادر فوج کا یوں حوصلہ بڑھایا کہ ’’ستم گر‘‘ کو الٹے پائوں بھاگنا پڑا۔ پاک فوج کا حوصلہ بڑھانے والے وہی لوگ تھے جنہوں نے 1947میں اپنے عزم کی طاقت سے انگریزوں کو دیس نکالا دیا تھا اور اپنے خطے کو آزاد کرایا تھا۔

1965کا ’’ستم گر‘‘ شاید بھول گیا تھا کہ ابھی پاکستانیوں کا جذبہ جوان ہے۔ آزادی کو ابھی اٹھارہ سال ہی تو ہوئے تھے۔ یہ تو عین عالمِ شباب کا زمانہ ہوتا ہے۔ ﷲ ﷲ !کیا عالم تھا ! شاعروں نے فوجی بھائیوںکےلئے گیت لکھے۔ گلوکاروں اور گلوکارائوں نے جانباز سپوتوں کیلئے اپنی آوازوں کا جادو جگایا۔ موسیقاروں نے سُر بکھیرے، صحافیوں نے ٹینکوں کی خریداری کےلئے چندا جمع کیا۔ عام شہری، طرح طرح کے کھانے، راشن اور ضرورت کا سامان لیکر محاذِ جنگ پر پہنچے، اہلِ سیاست اختلافات بھلا کر ایک ہوگئے۔ آج اس جنگ کو نصف صدی سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن سب کچھ بدل گیا ہے۔ ہم خود غرض ہو گئے ہیں۔ قومی اور ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ چند روپوں کی خاطر بک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ نوکری کرتے ہیں تو فرض میں کوتاہی کو معمول کی بات سمجھتے ہیں۔ کاروبار کرتے ہیں تو لین دین کے معاملات میں اونچ نیچ کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کم تولتے ہیں، زائد منافع لیتے ہیں، خراب مال چلا دیتے ہیں، دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر خوش ہوتے ہیں۔کسی اور کی شے پر قبضہ کرکے بغلیں بجاتے ہیں۔ انسانی اوصاف اوراخلاق کی قدر نہیں کرتے۔

ایمانداری، دیانت اور صداقت کو زمانے کی گئی گزری چیز خیال کرتے ہیں، میرے پاس اپنے موقف کی تائید کے لئے بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ آپ ریڑھی والے سے دوکلو پھل خریدتے ہیں، شاپنگ بیگ میں تمام پھل اپنی پسند سے ڈالتے ہیں لیکن ریڑھی والا شخص نہایت ہوشیاری سے آپ کا شاپنگ بیگ ہی تبدیل کر دیتا ہے۔ اس نے گلے سڑے پھل بھر کر پہلے سے کچھ شاپنگ بیگ تیار کر رکھے ہوتے ہیں وہ ان میں سے کوئی ایک آپ کوتھمادیتا ہے۔ گھر پہنچ کر آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔

یہی اندازِ تجارت ہے تو کل کا تاجر

برف کے باٹ لئے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

آپ گاڑی میں پٹرول ڈلوانے جاتے ہیں تو 45لیٹر کی ٹینکی میں 50لٹر پٹرول ڈال دیا جاتا ہے۔ اتنا سب کچھ کرنے کے بعد ہم وطن کے گیت گاتے ہیں ہر سال یوم ِ آزادی پر پرچم لہراتے ہیں، میرا اپنا ایک شعر ہے؎

ضمیر بیچ کے اندھی کمائی کرتا ہوں

پھر اس کے بعد میں پرچم کشائی کرتا ہوں

کل ستم گر ،بھارت تھا۔ ہمارا مسلمہ دشمن جس کے خلاف ہم ہمیشہ ایک ہوتے ہیں آج ہمارا دفاع مضبوط ہے۔دشمن کا خطرہ اگرچہ ہروقت رہتا ہے لیکن آج وہ ہماری طرف میلی نظر سے دیکھ نہیں سکتا۔ لیکن اس دشمن کا کیا کریں جو ہمارے اندر بیٹھا ہوا ہے ؟ جس نے ہمیں خودغرض بنا دیا ہے۔لالچی بنا دیا ہے، مفاد پرست کر دیا ہے، جو ہمیں دوسروں کے آنسو دیکھنے ہی نہیں دیتا۔جس نے ہمیں سیاست کے نام پر، مذاہب کے نام پر، کاروبار کے نام پر، لسانیات کے نام پرتقسیم کر کے رکھ دیا ہے، مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے ہمیں آج بھی ایک جنگ کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ ہمیں اپنے اندر موجود اس خودغرض آدمی سے لڑنا ہو گی جو ہمیں سچا اور کھرا پاکستانی بننے ہی نہیں دیتا۔ہم سارے وسائل اپنی ذات تک محدود کر لینا چاہتے ہیں۔

یہ دراصل فطرت سے ٹکرائو ہے، فطرت کی ہر چیزروئے زمین پر موجود ہر انسان کےلئے ہے لیکن ہم اپنے ہی جیسے انسانوں کو کبھی بھوک کے حوالے کردیتے ہیں، کبھی اسے پیاسا رکھتے ہیں۔کبھی اسے بے پیرہن کر دیتے ہیں، کبھی اس کے سر سے چھت کھینچ لیتے ہیں۔اگر بات کھلی نہیں تو اور واضح انداز میں بیان کئے دیتا ہوں۔یہ ہم ہی تو ہیں جو کبھی چینی غائب کر دیتے ہیں، کبھی آٹا چھپا لیتے ہیں تو کبھی پٹرول ذخیرہ کر لیتے ہیں کبھی ادویات، آدمی کو سماجی حیوان(SOCIAL ANIMAL)کہا جاتا ہے لیکن اب ہم صرف حیوان بن کر رہ گئے ہیں،سماج کہیں گم ہوگیا ہے۔

1965 والا جذبہ اگر ہمارے اندر مستقل طور پر موجود رہنے دیا جاتا ،اسے اگلی نسلوں تک منتقل کر دیا جاتا تو شاید آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی اتنا ہمیں جنگ نے نقصان نہیں پہنچایا جتنا ہماری خودغرضی اور مفاد پرستی نے پہنچایا ہے۔ یہ اتفاق اور اتحاد ہی ہے جس نے 1947میں پاکستان بنایا تھا۔ 1965میں پاکستان بچایا تھا اور اب یہی اتفاق اور اتحاد 2021کے پاکستان کو بچاسکتا ہے۔ ستم گردشمن، بہت مجبور ہے۔ اس کے لئے ہنوزدلی دور ہے لیکن وہ دشمن ہمارے بہت قریب ہے جس پر ہم تاحال قابو نہیں پاسکے۔آخر میں میرے دو شعر ملاحظہ کیجئے؎

بدلے ہوئے حالات میں جینا نہیں آیا

عاشق کو گریبان بھی سینا نہیں آیا

........

پھر ملبے کی تقسیم پہ ہوتی رہی تکرار

جب ہاتھ کسی کے بھی دفینہ نہیں آیا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین