پیارے بچو11؍ستمبر وہ دن ہے، جب قوم کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا۔ قائد کو بچوں سے والہانہ انسیت تھی جب کہ بچے بھی اپنے قائد سے بے پناہ پیار کرتے تھے۔ ایک دفعہ تقریب میں دیگر شرکاء کے علاوہ بچے بھی شریک تھے۔ وہاں ایک چھوٹا سا بچہ پُرجوش انداز میں ’’پاکستان زندہ باد، پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ قائداعظم نے اسے اپنے قریب بلایا اور اس نعرے کا مطلب پوچھا۔ بچے نے جواب دیا، ’’اس کا مطلب تو بہت آسان ہے، پاک لوگوں کا وطن‘‘، قائداعظم نے بچے کی ذہانت کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’جس قوم کےبچے اتنے ذہین ہوں، اسے علیحدہ وطن کے حصول سے کوئی نہیں روک سکتا‘‘۔
1940میںقائد اعظم ایک جلسے میں شرکت کے لیے دہلی جا رہے تھے۔ غازی آباد ریلوے اسٹیشن پر اُن کے استقبال کے لیے عوام کا ہجوم امُڈ آیا تھا۔ ان میں ایک دس سالہ بچہ بھی تھا جو ہار لئے کھڑا تھا۔ قائد خود اس بچے کے پاس گئے اور اپنی گردن اس کے آگے جھکا کر اسے ہار پہنانے کے لیے کہا۔ جب بچہ ہار پہنا چکا تو قائد نے اس سے سوال کیا کہ’’ بیٹا، تم یہاں کیوں آئے ہو‘‘؟’بچے نے جواب دیا ،’’آپ کو دیکھنے ‘‘ انہوں نے اس سے پوچھا، ’’مجھے دیکھنے کی وجہ‘‘؟ بچے نے جواب دیا ، آپ ہمارے لیے الگ وطن کے لیے لڑائی جو لڑرہے ہیں‘‘۔ قائد نے بچے کو شاباش دی اور فرمایا کہ’’ مجھے آج یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ مسلمان بچوں میں ملک و ملت کا احساس ہے‘‘۔
پاکستان کے قیام سے قبل ایک بچے نے محمد علی جناح کوڈاک کے ذریعے رومال بھیجا، جس پر پاکستان کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ قائد اس رومال کو ہر وقت اپنی جیب میں رکھتے تھے۔ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملاقات کے دوران انہوں نےجیب سے رومال نکال کرانہیں دکھایا اور کہا کہ،’’جس قوم کے بچوں کا یہ جذبہ ہو تو کون سی طاقت اسے الگ وطن کے حصول سے روک سکتی ہے‘‘؟
تحریک پاکستان میں فنڈ کی کمی کی وجہ سےبانی پاکستان کی طرف سے اخبارات میں چندے کی اپیل شائع ہوئی۔ایک یتیم خانے کے بچوں نےپیسےجمع کرکے قائداعظم کو بھجوائےاور اس کے ساتھ منسلک خط میں لکھا کہ ’’ہمارے اچھے قائد اعظم! ہم یتیموں کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت رکھے۔ ہم کو اخبار پڑھ کر معلوم ہوا کہ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں سے مسلم لیگ کے لیے چندے کی درخواست کی ہے۔ ہم یتیم بچوں نے بھی فیصلہ کیا کہ آپ کی خدمت میں کچھ ر قم پیش کریں۔
محترم قائد، ہم یتیم ہیں اور ہمارے کھانے پینے اور کپڑے وغیرہ کا انتظام یتیم خانے سے ہوتا ہے۔ ہمارے ماں باپ نہیں ہیں جو ہم کو روز پیسے دیں پھر بھی ہم نے یہ طے کیا ہے کہ آپ کی خدمت میں ضرور کچھ بھیجیں۔ اس لیے ہم کو دھیلہ، پیسہ جو کچھ بھی اور جہاں کہیں سے ملا، اس کو جوڑنا شروع کر دیا، یہاں تک کہ تین روپے دو آنے کی رقم جمع ہو گئی ہےجو ہم آپ کی خدمت میں روانہ کر رہے ہیں۔
پٹنہ سے نویں کلاس کے ایک طالب علم نے 22 اپریل 1942ءمیں قائد اعظم کے نام اپنے خط میں لکھا۔ ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر مہینے سات دن تک بغیر ناشتے کے مدرسے جاؤں گا اور اس طرح جو رقم بچے گی وہ آپ کو مسلم لیگ کے فنڈ میں جمع کرانے کے لیے ارسال کروں گا‘‘۔ بانی پاکستان نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت دی ہوئی تھی کہ بچوں کی طرف سے بھیجے جانے والے ہر خط سے انھیں مطلع کیا جائے۔