• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسن نثار نے کہا تھا ’’ہماری سیاست شعبدہ بازی ہے‘‘۔ بےشک ماضی میں ایسا ہی تھا۔سیاست صرف عوام کوبے وقوف بنانے کی کہانی تھی۔ سیاسی لیڈر ایک چہرے پر کئی چہرے سجالیتےتھے۔ یہ سوچتا ہوں کون سے رہبر و رہنما نے عوام کو فریب نہیں دیا تو ناموں سے خالی فہرست دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہوں۔ قائداعظم کے بعد کھوٹے سکوں کا عہد آتا ہے اور پھر عہدِ جیب تراشاں شروع ہو جاتا ہے۔کھوٹے سکوں تک معاملہ اتناتو تھاکہ جیب بھری ہوئی نظر آتی تھی اس کے بعدجیب ہی غائب ہو گئی۔ پہلی بار عمران خان نے ان قومی جیب تراشوں کے خلاف انصاف کی تحریک شروع کی۔ پہلی بار ایسے لوگ اقتدار میں آئے جنہوں نے عوام کو فریب نہیں دیا۔ایسے لوگ حکومت میں آئے جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ آج آلو اور ٹماٹر کا کیا ریٹ ہے، ایک درجن انڈے بازار میں کتنے کے مل رہےہیں،روٹی کتنے روپے کی ہو چکی ہے، چائے کا کپ کتنے میں بک رہا ہے؟ یقین کیجئے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکویہ سب باتیں معلوم ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اپنی معلومات کو سیاسی شعبدہ بازی کےلئے کبھی استعمال نہیں کیا۔عمران خان آج کل عوام سے براہ راست فون کال پر گفتگو کرتے ہیں اور لوگوں کی شکایات کا فوری ازالہ کیا جاتا ہے۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے مگرماضی کے حکمرانوں نےفون کرنے کےلئے اپنے بندے بٹھائے ہوئے تھے صرف انہی کی کالیں رسیو کی جاتی تھیں۔ ماضی میں یہ صرف شعبدی بازی تھی اب حقیقی طور پر کام ہورہا ہے۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا بھی عوام تک رسائی کا جو سلسلہ ہے ، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلے تو وزیراعلیٰ نے ہر ضلع میں انتظامی افسران کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ کھلی کچہریاں لگائیں، ریوینیو کچہریوں کا بھی انعقاد کرایا گیا جس کے سبب عوام کا بیوروکریسی پر کچھ اعتبار بحال ہوا۔ لوگ اس امید کے ساتھ اپنے مسائل لیکر سامنے آئے کہ اب سرکاری افسر بھی جوابدہ ہیں۔اس کے بعدخود وزیر اعلیٰ نے گھنٹوں لمبی کھلی کچہری لگانے کی روایت شروع کی جس میں موقع پر موجود سائلین کو فوری طور پر ریلیف فراہم کیا گیا۔ ایک ایک کے مسائل فرداًفرداًسنے اور متعلقہ عملے کی ڈیوٹی لگائی تاکہ کوئی بھی مایوس نہ لوٹے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے تمام افسران کو لائن حاضر کر رکھا تھا۔ جنوبی پنجاب کے 15 محکموں کے سیکرٹریز، پولیس افسران اور متعلقہ لوگ موقع پر موجود تھے۔

یہ کچہری صرف موقع پر موجود سائلین کی شنوائی کیلئے نہیں بلکہ 36 اضلاع میں موجود 11 کروڑ آبادی کے مسائل کے حل کیلئے ایک ماڈل کچہری تھی۔ اس کا اسکوپ صرف 90 شاہراہ قائد اعظم تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے ایک ایسا پریکٹیکل ماڈل پیش کرنا مقصود تھا جو تحصیلوں تک فالو کیا جاسکے۔ میں چونکہعثمان بزدار کا طرز حکمرانی 2018 سے بڑی باریک بینی سے دیکھ رہا ہوں ،مجھے پورااندازہ ہے کہ وہ کیسے اپنے آپ کو، اپنی کابینہ کو اور اپنی انتظامی ٹیم کو عوام کے آگے احتساب اور خدمت کیلئے پیش کرتے ہیں۔ عثمان بزدار نے 2018 میں وزیر اعلیٰ دفتر آتے ہی عوام کیلئے اپنے دروازے کھول دئیےتھے۔ اور عوام سے ملنے کا سلسلہ شروع کیا جس میں بڑی تعداد میں پنجاب بھر سے لوگوں نے بھرپور شرکت کی۔اس اسٹرٹیجی سے فرق یہ پڑا کہ بیوروکریسی پراچھے اثرات مرتب ہوئے۔ اس نے سول سروس کے مفہوم پر عمل درآمد کی کوشش کی کہ ہم افسر نہیں عوام کے ملازم ہیں ، خدمت گزار ہیں۔ یقیناً جب سرکاری افسران وزیر اعلیٰ کو عوام کے درمیان بیٹھا ہوا دیکھتے ہیں تو انہیں یہ میسج مل جاتا ہے کہ اب ان کا سروائیول اسی میں ہے کہ وہ بھی اپنے دفاتر کے دروازے عوام کیلئے کھولیں۔ وزیر اعلیٰ نے واضح الفاظ میں کہا ہےکہ ’’ اب محکموں کو کام کر کے دکھانا ہوگا، سُستی برداشت نہیں ہوگی۔عوامی مسائل کے حل کے اقدامات میں کوتاہی ہر گز برداشت نہیں کریں گے۔ خالی باتوں اور پریزنٹیشن کا وقت گزر چکا، جو محکمہ بھی کام نہیں کرے گا اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی بہترین سروس ڈلیوری کو ہر صورت یقینی بنایا جائے، وہ محکموں کو ہر ماہ دیے گئے اہداف کا جائزہ خود لیں گے‘‘۔

وزیر اعلیٰ کی کھلی کچہری میں خواتین بھی آئیں ، بزرگ اور معذور افراد بھی۔انہوں نے اپنے دروازے بلا تفریق سب کےلئے کھول دئیے، لوگوں سے محبت کا اظہار کیا اور یہی پیغام دیا کہ وہ عوام میں سے ہیں اور پسماندہ علاقوں کے وکیل ہیں، ان کے حقوق کے علمبردار ہیں۔ پنجاب کے عوام کے ساتھ جو ایک خاص رابطہ وزیر اعلیٰ صاحب نے بنا لیا ہے، یہ تحریک انصاف کیلئے اگلے الیکشن میں انتہائی اہم ثابت ہوگا۔ اور صرف اسی جماعت کیلئے ہی نہیں بلکہ ہر صوبے کیلئے، ہر سیاسی پارٹی کیلئے عثمان بزدارنے سیاست اور خدمت کا فریم ورک ایک ماڈل کے طور پر پیش کردیا ہےکہ مشعل ِراہ ثابت ہومگر مشعلوں سے روشنی صرف وہی حاصل کر سکتے ہیں جن کے دل بغض سے پاک ہوں اورجن میں کچھ سیکھنے کی طلب زندہ ہومگر افسوس کہ سورج کو سیاہ گولا کہنے والوں سے بحث ممکن نہیں۔ سیاسی شعبدہ بازی کے ایک طویل ترین دور سے گزر کر بہت سے لوگ اس کے عادی ہو چکے ہیں۔ بالکل اس پرندے کی طرح جوقفس سے مانوس ہو جاتا ہے مگر پرانا تماشا ختم ہو چکا ہے۔ تماشا بھی گیا اور مداری بھی گئے۔ اب پاکستان کے لوگوں کو کسی نئی اپوزیشن کی تلاش ہے اور جگہ زیادہ دیر تک خالی نہیں رہتی۔

تازہ ترین