اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ پاکستان میں اب بھی 30 لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں، افغانستان کی صورتِ حال، تنازع کے نتائج سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوا، نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے، پاکستان کی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔
افغانستان کی صورتِ حال پر منعقدہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم کا کہنا ہے کہ نائن الیون حملوں کی 20 ویں برسی پر امریکا کے لوگوں سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ داعش اور القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں پیر جمانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے، افغانستان میں کالعدم تنظیموں کو کام کرنے کا موقع نہیں ملنا چاہیئے۔
اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے کہا کہ افغانستان کے منجمد اکاؤنٹس کی بحالی ضروری ہے، عالمی برادری انسانی حقوق کی بنیاد پر کابل کی امداد کرے، آج افغانستان اپنی تاریخ کے اہم موڑ پر کھڑا ہے، عالمی برادری کو افغانستان میں مصروفِ عمل رہنا چاہیئے، افغانستان میں بڑے پیمانے پر خونریزی ہونے سے روکی گئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کابل پر زور دیتے ہیں کہ عالمی ایجنسیوں کو کام کرنے کی اجازت دیں، افغان حکومت یو این ایجنسیوں کو رسائی دے، افغانستان میں انسانی بحران کی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے، 18 ملین افغانوں کو انسانی امداد کی فوری ضرورت ہے۔
منیر اکرم کا کہنا ہے کہ افغانستان کو اس کے اقتصادی وسائل تک رسائی کی ضرورت ہے، ماضی میں افغان سر زمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا، امید ہے کہ افغان سر زمین دوسرے ممالک کےخلاف استعمال نہیں ہو گی، افغان حکومت ملک میں امن اور انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنانے کیلئے تشکیل دی گئی۔
اپنے خطاب میں منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان نے افغان عوام کیلئے امدادی سامان اور طبی امداد کے 3 جہاز بھیجے، آج افغانستان اپنی تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، افغان عوام بین الاقوامی برادری کے تعاون سے امن بحال کر سکتے ہیں، پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی جاری رکھے ہوئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے افغانستان میں امن اور استحکام کی بحالی ضروری ہے، افغانستان کے حالات کی نزاکت کے باوجود اب تک خونریزی کا خوف ٹل چکا ہے، امید کرتے ہیں کہ کابل میں ’قائم مقام حکومت‘ امن و امان اور سلامتی قائم کرنے میں کامیاب ہو گی۔
پاکستانی مندوب نے کہا کہ کابل میں حکومت لوگوں کو بنیادی خدمات بحال کرے گی، اقوامِ متحدہ کے ساتھ تعاون میں بین الاقوامی انسانی امداد کی بر وقت تقسیم کو فعال کرے گی، پاکستان نے اب تک افغانستان سے 30 ممالک کے 12000 سے زائد افراد کو نکالنے میں مدد کی، انخلاء کرنے والوں میں سفارتی عملے اور بین الاقوامی اداروں کا عملہ بھی شامل ہے، امید ہے کہ مستقبل میں تمام انخلاء کابل میں قائم مقام حکومت کی مشاورت سے منظم ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ضروری ہے کہ خوف کا احساس پیدا نہ کریں جس سے افغانستان سے مہاجرین کا سیلاب پیدا ہو، بین الاقوامی برادری کو افغانستان میں مصروف رہنا چاہیئے، عدم استحکام یا معاشی تباہی تنازعات کو برقرار رکھے گی، کسی کو فائدہ نہیں ہو گا، ماضی کی حکومتوں کی ناکامی اور بدعنوانی کی وجہ سے افغانستان میں انسانی صورتِ حال سنگین ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ ہمیں حالات کو مزید خراب ہونے سے روکنا چاہیئے، یو این کے سیکریٹری جنرل کی جانب سے 13 ستمبر کو وزارتی اجلاس بلانے کا خیر مقدم کرتے ہیں، امید کرتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری افغانستان کے لیے دل کھول کر حصہ ڈالے گی، افغانستان میں یو این ایجنسیوں کی سرگرمیاں افغان حاکمیت کا احترام کرتے ہوئے ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں انسانی صورتِ حال سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا، پاکستان نے چین، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کی میزبانی کی، مشترکہ بیان میں افغانستان کی خود مختاری اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی حمایت کی گئی۔
پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ نوٹ کیا گیا کہ افغانستان کے مستقبل کا تعین اس کے لوگوں کو کرنا چاہیئے، افغانستان میں جامع حکومتی ڈھانچہ تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا، بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان مہاجرین کے لیے پائیدار مالی مدد فراہم کرے، افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقاتیں جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
منیر اکرم نے یہ بھی کہا کہ پاکستان توسیعی ٹرائیکا فارمیٹ کا حصہ ہے جس میں روس، چین، امریکا شامل ہیں، دہشت گرد گروہوں کی طرف سے لاحق خطرے کو جامع اور باہمی تعاون سے حل کیا جانا چاہیئے، پاکستان نے کالعدم ٹی ٹی پی کے سیکڑوں دہشت گرد حملوں کو برداشت کیا، کالعدم ٹی ٹی پی کو دشمن خفیہ ایجنسیوں کی سر پرستی حاصل تھی، ہم کابل حکام کے ساتھ مل کر دہشت گرد تنظیموں کو روکنے کے لیے کام کریں گے۔