لاہور (نمائندہ جنگ)لاہور ہائیکورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن جے آئی ٹی پرازسرنوسماعت کافیصلہ کیاہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ محمد امیر بھٹی کی سربراہی میں 7 رکنی لارجر بنچ نے سانحہ ماڈل ٹائون کی دوسری جے آئی ٹی کی تشکیل کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس ملک شہزاد احمد، جسٹس عالیہ نیلم، جسٹس سرفراز ڈوگر ، جسٹس شہباز رضوی، جسٹس سردار احمد نعیم اورجسٹس طارق سلیم شیخ شامل تھے۔ انسپکٹر رضوان قادر سمیت دیگر نے سانحہ ماڈل ٹائون کی دوسری جے آئی ٹی کی تشکیل و چیلنج کر رکھا ہے، درخواست گزاروں کی جانب سے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ جبکہ سانحہ ماڈل ٹائون متاثرین کی طرف سے بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میں سابق بینچ میں نہیں تھاسماعت نئے سرے سےشروع کریں،ہم اس کیس کو ایسےہی سنیں گے کہ جیسے یہ پہلے دن دائر ہوا۔بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہایہ کیس حکومت اور شہریوں کے درمیان واقعہ سے متعلق ہے، 2014ء میں انسپکٹر رضوان قادر ہاشمی کی مدعیت میں پاکستان عوامی تحریک کے رہنمائوں اور کارکنوں کیخلاف درج کیا گیا، 20 جون 2014ء کو پنجاب حکومت نے 5 رکنی جے آئی ٹی بنائی اور 21 جون کو جے آئی ٹی ممبران کی تعداد 10 کر دی گئی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ان ممبران کی تعداد کم یا زیادہ ہونے سے آپکے دلائل پر کوئی فرق پڑتا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے کہا میرے دلائل کا انحصار ان حقائق پر منحصر نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا آپ درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل دیں، حقائق بتانا درخواست گزار کے وکیل کی صوابدید ہے، بینچ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ درخواست گزار کے وکیل پہلے دلائل دیں، چیف جسٹس نے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کیس کو نئے سرے سے شروع کریں کیونکہ میں سابق بنچ میں شامل نہیں تھا، اعظم نذیر تارڑ نے دلائل دیتے ہوئے کہا 16 جون 2014ء کو وقوعہ ہوا اور رضوان قادر ہاشمی انسپکٹر کی مدعیت میں پہلا مقدمہ درج کیا گیا۔