طاہرہ پروین جعفری
یہ زیادہ پرانی بات نہیں کہ صبح سویرے بچوں کو اسکول بھیج کر مائوں کی اکثریت دوبارہ سو جایا کرتی تھی۔ پھر دوپہر میں بچوں کی واپسی پر کھانے سے فارغ ہوتے ہی قاری صاحب تشریف لاتے اور بیچارے بچے تھکے ماندے سپارہ پڑھنے بیٹھ جاتے۔ سپارے سے فارغ ہوتے ہی ٹیوشن جانے کی تیار کرتے۔ ٹیوشن تو اتنی ضروری تھی کہ شاید اس کے بغیر تو پاس ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اور اس پر ستم یہ کہ ہر ماں کو اپنے بچے کا’’اے‘‘ گریڈ ہی چاہیے، اب چاہے بچہ اوسط درجے کا طالب علم ہی کیوں نہ ہو اور مائوں کی اکثریت اپنی اولاد کی تمام تر ذمہ داری اسکول اور ٹیوشن پر ڈال کر اپنی جیب پر بھی اضافی بوجھ ڈالتیں اور کمائی کا ایک بڑا حصہ بھی ان پر خرچ ہوتا ۔ان سب کے باوجود بھی نتیجہ تسلی بخش نہیں ہوتا ۔
اس تمام بھاگ دوڑ میں شخصیت پر پڑنے والے اثرات کا اندازہ بھی شاید بہت سے لوگوں کو نہیں ہوتا ،مگر اچانک ایک ایسا وقت آیا جب ہر شخص چار دیواری تک محدود ہو گیا اور ظاہر ہے بچے بھی چوبیس گھنٹے گھروں میں رہنے پر مجبور ہو گئے۔ اس صورت حال سے جہاں بچے پریشان ہوئے بلکہ ان سے کہیں زیادہ مائیں پریشان نظر آئیں، خاص طور پر وہ خواتین جنہوں نے آرام طلب طبیعت پائی تھی۔
معمولات زندگی کی بھاگ دوڑ تھمی تو انسان کوچند لمحے میسر آئے جب انسان نے ان کےنتائج پر غوروفکر کرنا شروع کیاتو بچوں میں تعلیم کے ساتھ تربیت کا فقدان نظر آیا۔ مقابلے کی دوڑ میں اس قدر الجھ گئے کہ اولاد کو بڑے چھوٹے کا احترام، اٹھنا بیٹھنا ،یہاں تک کہ گفتگو کرنے کا قرینہ تک نہ سکھا سکے۔ اور ان باتوں کا ادراک اس وقت کئی گھرانوں کو شدت سے ہوا جنہوں نے زندگی کے اس پہلو پر اس سے پہلے کبھی غور نہ کیا تھا اور صرف اعلیٰ تعلیمی ریکارڈ بنانا ہی کافی نہیں بلکہ ایک اچھا انسان ایک اچھا شہری بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ایسا ان لوگوں کے ساتھ ہوا جن کے بچے تھوڑا بڑے تھے، مگر بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ایسے بچوں کی بھی ہے جنہیں ابھی اپنا تعلیمی سفر شروع کرنا تھا۔
ان مائوں کے لئے بچوں کو ابتداء سے ہی آئن لائن تعلیم دلوانی پڑی ۔اور یہ بچے اپنی مائوں کی مدد کے بغیر نہیں پڑھ سکتے۔ ایسی مائوں کو نسبتاً زیادہ اسمارٹ ہونا پڑا۔ آن لائن تعلیم کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ڈیڑھ سال تک یہ بچے گھروں میں آن لائن پڑھتے رہے۔ جتنا وقت کلاس ہوتی۔ مائوں کو بچوں کے ساتھ بیٹھنا پڑتا ، اور ان پر بھرپور توجہ دینا پڑتی ہے۔
اگرچہ تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں لیکن اب بھی کچھ اسکولوں میں آن لائن تعلیم دی جارہی ہے۔ یہ نئی نسل جو اسکول اور ٹیوشن کے کلچر سے ناواقف ہے اپنی ماؤں کی زیر نگرانی پڑھ رہے ہیں۔ معاشرے میں ایک عورت کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس وقت کے ماحول میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور غیر سنجیدہ طرز عمل سے ہوتا ہے۔
نو عمر بچے اور لڑکیاں سب ہی فضول مشاغل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جسمانی کھیل کود، ورزش کے بجائے وہ اسکرین پر نظریں جمائے گھنٹوں اپنا وقت ضائع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ آن لائن پڑھائی کو اب تک سنجیدگی سے نہیں لیتے، مگر اس دور میں پڑھائی کی ابتداء کرنے والے چھوٹے بچے اپنے بڑے بہن بھائیوں کی نسبت زیادہ توجہ اور دلچسپی سے پڑھ رہے ہیں۔ اور بہت سے تلخ تجربات سے بھی محفوظ ہیں جب کہ ان سے بڑے اچھے گریڈ لانے کے لئے سخت جسمانی اور ذہنی مشقت کا سامنا کرتے تھے۔ اب دینی تعلیم کے لئے آن لائن قاری یا قاریہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہاں بھی مائوں کی ذمہ داری بڑھ رہی ہے کہ بہرحال ان کو وقت پر بٹھانا اور سبق یاد کروانا یہ بھی انہی کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
اس وقت جو بچے زیر تعلیم ہیں ان کی مائوں کو وقت کے ساتھ اپنے اندر ہر وہ صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ان کے بچے کی تعلیم کے لئے درکار ہے۔ بچے کی تعلیم میں دوسروں پر انحصار کرنے کے بجائے وہ خود اس میں شامل ہو سکتی ہیں۔ جدید آلات سے آگاہی یعنی کمپیوٹر میں موجود فنکشن سے آگاہی رکھنا، تاکہ آن لائن کلاس کے وقت یہ سب آسانی سے کر سکیں۔ اور جب ماں ساتھ بیٹھی ہو گی تو اس کو یہ معلوم ہو گا بچہ کس بات کو آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور کہاں اسے مشکل پیش آتی ہے۔
ہر دور میں ماں کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، مگر اس دور کی مائوں کو اگر اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے تو جدید تعلیمی نظام کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو گھروں میں رہتے ہوئے آگے بڑھنے اور ایک نئے ماحول کے لئے تیار کرنا ہے۔ اس وقت ایک عورت کو گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اولاد کی تربیت پر بھی بھرپور توجہ دینی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہےکہ ہر دور گزشتہ دور سے مختلف ہوتا ہے۔ اور اولاد کی تربیت ان کے دور کے حساب سے کی جاتی ہے۔
یہ نئی نسل ہمارا مستقبل ہے ان کی تعلیم کے ساتھ ان کی صحت و سلامتی کا خیال رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ اگرچہ صبح سویرے اُٹھنا اور تیار ہو کر اسکول جانا زندگی گزارنے کے طور طریقوں میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات نے جہاں عورت کو یہ سکھایا کہ کس طرح وہ معاشی طور پر اپنے گھر والوں کا ساتھ دے سکتی ہے۔ وہیں یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ محض ڈگری، گریڈ کافی نہیں بلکہ کسی ایسی ہنریا تربیت بھی ضروری ہے ،جس کے حصول کے بعد معاشی طور پر انہیں کسی کا محتاج نہ ہونا پڑے۔
یہ معصوم بچے ابھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں جو کوتاہی اس سے پہلے ہو چکی ہیں۔ اُمید ہے کہ ان پر بھرپور توجہ دے کر معاشرے کو بہتری کی سمت رواں کیا جائے۔ اسکول، مدرسہ، ٹیوشن میں سب سے زیادہ اہم ماں کی تربیت ہے کسی دوسرے پر اپنے بچے کی ذمہ داری نہ ڈالیں ،بلکہ خود ان کو بہ خوبی طر یقے سے نبھائیں۔