• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خانِ اعظم کے مخالفین کا تو کام ہی رولا ڈالنا ہے لیکن اب تو ان کے شیدائی،فدائی سبھی کبھی پیار سے، کبھی انکار سے تو کبھی غصے میں کہنے لگے ہیں کہ خان صاحب! ذرا ہتھ ہولا رکھیں۔ ہم مہنگائی کے ہاتھوں مر رہے ہیں کچھ کرو، لفظ افسوس اس وقت افسوس ناک بن جاتا ہے جب خان اعظم کے ترجمان اعلیٰ محترم چودھری صاحب جیسے پڑھے لکھے، باشعور انسان بھی بہکی بہکی باتیں کرنے لگیں اور حقائق کے برعکس پٹرول کی قیمتوں میں یکمشت پانچ روپے فی لٹر اضافے اوربڑھتی مہنگائی پر لایعنی دلیلیں دیں تو ایسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ آپ سادہ لوح عوام کو خوشبو والا رومال سنگھا کر لوٹنے سے باز نہیں آرہے۔ اگر چودھری صاحب کو کبھی فرصت ملے توتنہائی میں بیٹھ کر اپنے ہی پوسٹ شدہ” تعویذ“ کو دوبارہ غور سے پڑھ لیں اور اپنے آپ سے سوال پوچھیں کہ کوئی اس طرح ہماری غربت کا مذاق اُڑاتا ہے۔ ایسا سلوک تو کوئی بدترین دشمن بھی نہیں کرتا جو سرکار اپنی رعایا سے کررہی ہے۔ چوہدری صاحب وہ دن بھی یاد کرلیں جب ہمارے خان اعظم نے پوری قوم کو خوش خبری سنائی تھی کہ ایک ہفتے میں کراچی کے سمندر سے تیل و گیس کا ایک ایسا خزانہ نکلنے والا ہے کہ لوگ اگلے پچاس سال میں اپنے سارے دکھ درد بھول جائیں گے۔ سادہ لوح لوگوں نے تو خان اعظم کے اس اعلان پر ایڈوانس میں دو نفل بھی پڑھ لئے تھے اور جشن کی تیاریاں بھی مکمل تھیں لیکن کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔ اُلٹا ہم چودہ ارب روپے سے بھی گئے۔ دیہاڑی لگانے والے گہرے سمندر میں ڈرلنگ کے نام پر حکومت کوتیز چونے والا میٹھا پان کھلا کر نکل پڑے۔ وہ دن اور آج کا دن۔ حکمران خزانے کی تلاش میں اور ہم خوابوں کی دنیا میں گم ہیں۔ خدارا ! خوابوں کی اس دنیا سے باہرنکل آئیں۔ چودھری صاحب! آپ کو یاد دلائے دیتے ہیں کہ آج بھی مزدور چھ سوسے سات سو روپے ، مستری کی دیہاڑی آٹھ سو سے ایک ہزار روپے ہے۔آپ کہتے ہیں تین گنا بڑھ گئی جبکہ تین سال قبل بھی مزدور اسی دیہاڑی پر کام کررہا تھا۔ آپ تعمیرات کے شعبے میں ترقی، بڑھتی آمدن کا ذکر تو کررہے ہیں لیکن کبھی مارکیٹ میں جا کر سیمنٹ، سریے کے ساتھ ساتھ تعمیراتی میٹریل کی قیمتوں کا جائزہ تو لیں کہ تین سال میں یہ کہاںسے کہاں پہنچ گئیں۔ اب اپنی چھت کا خواب تو قبر میں ہی پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔ چودھری صاحب سفید پوش لوگ رُل گئے۔ مڈل کلاسیئے مارے گئے، لوئر مڈل کلاسیئے تو کہیں کے نہ رہے۔ زراعت کے شعبے میں بھی حکومتی کامیابیوں کے اعداد وشمار ملاحظہ فرما لیجئے کہ یہ جو آپ ساٹھ فی صد آبادی کو زراعت سے وابستہ قرار دے رہے ہیںیہ دعویٰ درست نہیں۔ درست اعدادو شمار تو یہ کہہ رہے ہیں کہ زراعت سے وابستہ آبادی کا تناسب 29 ، 35 یا 40 فی صد کے درمیان ہے آپ جو گیارہ سو ارب روپے کی اضافی آمدنی کسان، کاشت کار کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں اس کا حساب کتاب بھی پیش ہے کہ 2018 ءمیں جو یوریا کھاد کی بوری 12 سو روپے میں مل رہی تھی اب 48 سو روپے سے زائد میں مل رہی ہے۔ ڈی اے پی کی قیمت 2300 روپے سے 7800 روپے فی بوری بوری ہو چکی ہے۔ زرعی ادویات بشمول اصلی و جعلی کی قیمتیں آسمان کو چُھو رہی ہیں۔ آپ کی سرکار نے ٹیوب ویل پر سبسڈی ختم کر دی۔ پہلے کسان بجلی کا بل 5 ہزار ماہانہ ادا کرتا تھا اب یہی بل 50 ہزار کو چھونے لگا ہے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں آئے دن اضافے نے کاشت کار کو اس حد تک مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنا ٹیوب ویل چلا سکے نہ ٹریکٹر۔ اب تو چھوٹا کسان بیلوں کے ذریعے ہل چلانے پر مجبور ہے۔ 9لاکھ روپے والا ٹریکٹر17 لاکھ میں دستیاب ہے۔ ہمارے خان اعظم تو کنٹینر پر کھڑے ہو کر بجلی کے بل جلانے کی دھمکیاں دیتے تھے، عوام کو ٹیکس ادا نہ کرنے پراکساتے تھے، کسان کو مفت بجلی فراہم کرو کا نعرہ لگاتے تھے۔ کیا خان اعظم یہ سب کچھ بھول گئے جو بجلی کے بلوں پر5 سے 35 فی صد ایڈوانس انکم ٹیکس عائد کر دیا۔ آپ سرکار کے دور میں ایک بار پھر ادویات کی قیمتوں میں 14 ویں مرتبہ سو فی صد اضافہ کر دیا گیا۔ اب تو غریب باقاعدگی سے دوا کھانے کی بجائے مرنے کو ترجیح دیتا ہے۔کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابی نتائج سب کے سامنے ہیں اور اس کے باوجودموجودہ حکمرانوں کی حالت یہ ہےکہ بڑے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ اگلے پانچ سال بھی ہمارے ہیں۔

تازہ ترین