اسلام آباد (انصار عباسی) لاہور میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے دہشت گرد حملے سے ٹھیک 40؍ دن قبل، پنجاب کے کرائم انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی آئی ڈی) نے 22؍ جنوری 2009ء کو واضح تھریٹ الرٹ (خطرے کا انتباہ) جاری کیا تھا جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے مہمان ٹیم پر حملہ کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کے منصوبے کا ذکر شامل تھا۔
سی آئی ڈی نے ذریعے کے حوالے سے بلا شک و شبے کے کہا تھا کہ دہشت گرد حملہ ہوگا خصوصاً اس وقت جب سری لنکن ٹیم ہوٹل اور اسٹیڈیم کے درمیان محو سفر ہوگی یا ہوٹل میں قیام پذیر ہوگی۔ جس کے بعد 3؍ مارچ 2009ء کو پوری دنیا نے دیکھا کہ وہی کچھ ہوا۔
اس سے اہم ترین سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس وقت کی حکومت نے سیکورٹی کے معاملے کس قدر سنگین کوتاہی کا مظاہرہ کیا تھا۔
اگرچہ جن لوگوں نے خطرے کے اس انتباہ کو نظرانداز کیا تھا انہیں کوئی سزا نہیں ملی لیکن یہ واضح تھا کہ کس طرح بھارت نے پاکستان میں کرکٹ کو نقصان پہنچانے کیلئے دہشت گردی میں مدد فراہم کی تھی۔
22؍ جنوری 2009ء کو ’’سیکریٹ / فوری‘‘ کے نشان کے ساتھ جو رپورٹ دی گئی تھی اس میں ’’سورس رپورٹ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ مصدقہ طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ را نے اپنے ایجنٹس کو ذمہ داری دی ہے کہ سری لنکن ٹیم کو اس کے دورہ لاہور کے موقع پر نشانہ بنایا جائے خصوصاً اس وقت جب وہ ہوٹل اور اسٹیڈیم کے درمیان سفر کر رہی ہو یا ہوٹل میں قیام پذیر ہو۔
یہ واضح ہے کہ را کی خواہش ہے کہ پاکستان کو خطرناک ریاست کے طور پر پیش کیا جائے خصوصاً اس وقت جب یورپی اور بھارتی ٹیموں نے اپنے مجوزہ دورے منسوخ کر دیے ہوں اور پاکستان کو ہائی سیکورٹی رسک ملک کے طور پر دیکھا جائے۔
را نے جماعۃ الدعوۃ (کالعدم) کے رہنمائوں اور ان کے ٹھکانوں کی تصاویر بھی جمع کی ہیں تاکہ انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔
انتہائی محتاط رہنے اور اعلیٰ ترین سیکورٹی انتظامات کی ضرورت ہے۔ یہ رپورٹ اُس وقت کے سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ، چیف سیکریٹری پنجاب جاوید محمود، اُس وقت کے وزیراعلیٰ کے سیکریٹری سید توقیر شاہ، سیکریٹری داخلہ ندیم حسن آصف کو 22 جنوری کو بھیجی گئی تھی اور ساتھ ہی ایڈیشنل آئی جی پی سی آئی ڈی ملک محمد اقبال کا کورنگ لیٹر بھی بھیجا گیا تھا۔
اسی کورنگ لیٹر میں ایک نوٹ بھی شامل تھا جس میں لکھا تھا کہ سی سی پی او لاہور اور کمشنر لاہور کو علیحدہ سے مطلع کیا گیا ہے تاکہ ضروری اقدامات کیے جائیں۔ اسی دن معاملے کی حساسیت کی وجہ سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو مطلع کیا گیا جن کی ہدایت پر فوری اور خفیہ نوٹ آئی جی پنجاب، کمشنر لاہور، چیف سیکریٹری اور سیکریٹری داخلہ کو بھیجا گیا۔
وزیراعلیٰ کی جانب سے یہ کہا گیا تھا کہ انہوں نے سورس رپورٹ دیکھ لی ہے اور ہدایت کی ہے کہ سری لنکن ٹیم کی حفاظت کیلئے ہر ممکن اقدام کیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انتہائی احتیاط اور اعلیٰ سیکورٹی انتظامات کی ضرورت ہے تاکہ ناخوشگوار صورتحال سے بچا جا سکے۔
23؍ جنوری کو اس معاملے پر کمشنر لاہور خسرو پرویز خان کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد ہوا اور اس میں ڈائریکٹر آئی بی مرزا تمریز خان، ڈی آئی جی ٹریفک محمد غالب بندیشا، ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل ثاقب، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر لاہور احمد رضا، ایس پی سی آئی ڈی لاہور عظمت اللہ، ڈی سی او لاہور سجاد احمد، پروٹوکول افسر ڈی جی پروٹوکول لاہور نور الحسن، ایس پی ٹریفک لاہور محمد آصف خان، ایس پی سٹی لاہور رانا عبدالجبار اور دیگر نے شرکت کی تھی جس میں صوبائی حکومت نے شہباز شریف کی قیادت میں پہلے پاک سری لنکا ون ڈے میچ (منعقدہ 26 جنوری 2009) کیلئے سخت سیکورٹی انتظامات کیے۔
حکام نے اُس وقت دہشت گردی کے خطرے کے ہر پہلو پر بات کی اور اقدامات کا فیصلہ کیا گیا۔
میٹنگ منٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ جامع سیکورٹی پلان مرتب کیا گیا تھا اور را کے ممکنہ دہشت گردی کے منصوبے سے نمٹنے کیلئے کنٹی جنسی پلان بھی مرتب کیا گیا۔
اس وقت کے آئی جی پنجاب شوکت جاوید نے ذاتی حیثیت میں میچ کے دن کرکٹ ٹیم کے سفر کے راستے کا دورہ کیا تھا اور وہاں تعینات پولیس والوں سے بھی بات چیت کی تھی۔
اس وقت کے سی سی پی او پرویز راٹھور نے بھی ایک سے زائد مرتبہ علاقے کا دورہ کیا۔
یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے پنجاب میں 25؍ فروری 2009ء کو گورنر راج نافذ کر دیا جس میں نہ صرف چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو تبدیل کر دیا گیا بلکہ لاہور میں پولیس والوں کی ایک بڑی تعداد بشمول سی سی پی او، ایس پی آپریشنز اور 6؍ دیگر ایس پیز کو بھی تبدیل کر دیا گیا جس کی وجہ سے سی آئی ڈی کی رپورٹ کے مطابق را کے منصوبے سے توجہ ہٹ گئی اور پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔