• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مصدق ملک کے ساتھ ہماری پہلی ملاقات نگران دور میں ہوئی جب ہم نے انہیں کسی تقریب میں پانی و بجلی کا رونا روتے دیکھا اور پہلی ملاقات میں ہی بھانپ گئے کہ آدمی نہایت زیرک ہیں اور سینے میں دل کی جگہ بھی پاکستان دھڑکتا ہے۔ نگران وزیروں کو لوگ عام طور پر نقلی وزیر کہا کرتے ہیں اور جونہی نگران دور ختم ہوتا ہے، یہ بیچارے ماضی کے ایسے مزاربن جاتے ہیں کہ جن پر کوئی عقیدت مند کبھی بھولے سے بھی حاضری نہیں دیتا۔ مگر اس بار دو نگران وزیروں نے اس پرانی روایت کو توڑ ڈالا ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب آجکل کرکٹ بورڈ کے انچارج بن بیٹھے ہیں جبکہ نگران وزیر پانی و بجلی مصدق ملک کو وزیراعظم نوازشریف نے اپنی کابینہ میں بطور معاون خصوصی برائے پانی و بجلی لے لیا ہے اور دونوں کے آتے ہی ان اداروں پر خوشگوار اثرات مرتب ہونے لگے ہیں۔ کرکٹ کے میدان میں ہماری مریل اور مفلوک الحال سی ٹیم نے دھیرے دھیرے صحت مندی کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ہے۔ نجم سیٹھی یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔
ادھر پانی اور بجلی کے حوالے سے بھی ٹھیک ٹھاک جنبش ہوئی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ اگلے تین چار سالوں میں کم از کم لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جائے گا۔ البتہ ہمارا اصل مسئلہ چونکہ بجلی نہیں بلکہ پانی ہے، اس حوالے سے نوازشریف کو یقینا چند بڑی شاٹس کھیلنی پڑیں گی۔
ایک پرمغز مگر عبرتناک بریفنگ
وزیراعظم کی دعوت کو ہم نے ابتداً اس لئے گول کردیا کہ ہمیں حسب معمول شو ریکارڈ کرنا تھا۔ تاہم بعض دوستوں کے محبت بھرے اصرار کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے اور یوں ہم تقریباً دو سال کے وقفے بعد اسلام آباد کے لئے نکل کھڑے ہوئے۔ وزیراعظم سیکرٹریٹ پہنچے تو مختلف ”انواع و اقسام“ کی صحافتی شخصیات کو اپنے گرد پا کر بہت اچھا محسوس ہوا۔ میاں صاحب ہمیشہ کی طرح نہایت خوشگوار موڈ میں تھے۔ چند دلچسپ اور مخولیہ باتوں کے ساتھ انہوں نے سیشن کا آغاز کیا اور پانچ سات منٹ بعد اپنے معاون برائے پانی و بجلی کا تعارف کرواتے ہوئے انہیں ڈائس پر طلب کرلیا۔ معاون صاحب، یعنی مصدق ملک نے حکومت کی انرجی پالیسی پر ملٹی میڈیا پروجیکٹر کی مدد سے ایک ایسی بریفنگ شروع کی جو اپنے مندرجات کی وجہ سے تو خاصی تابناک تھی مگر طوالت کے سبب بلاشبہ ہماری زندگی کی سب سے عبرتناک بریفنگ ثابت ہوئی۔
دیامیر بھاشا اور نیلم جہلم پراجیکٹ
دونوں مندرجہ بالا ڈیمز کے حوالے سے بھی بہت کچھ سننے کو ملا۔ ایک کے بارے میں بہت اچھی باتیں سامنے آئیں جبکہ دوسرا نری ڈپریشن کی علامت بن کر ہمارے اعصاب پر سوار ہوا۔ اول الذکر یعنی دیا میر بھاشا بارے سنتے تھے کہ امریکہ نے بھارت نوازی کا ثبوت دیتے ہوئے اعتراض بلند کردیا ہے کہ متنازعہ علاقے میں واقع ہونے کی وجہ سے اسے فنڈ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ زرداری حکومت ہلکی پھلکی ناکام منت سماجت کرنے کے بعد پراجیکٹ کو ہی داخل دفتر کر بیٹھی۔
مگر موجودہ حکومت نے خوب شور ڈالا او ر قانونی نکتے پیش کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ ہمیں بھارت سے کسی قسم کا این او سی حاصل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ بھارت خود بھی جن علاقوں پر 225 ارب ڈالر کی مدد سے بنائے جانے والے کارگل ڈیم سمیت درجنوں نئے پراجیکٹ بنا رہا ہے وہ علاقے بھی بھاشا دیامیر جتنے ہی متنازعہ ہیں اور یہ کہ کارگل، دراس، بٹالک اور لیہ وغیرہ کا علاقہ بھی بھارت کے ابا جان کی ملکیت نہیں ہے۔ خیر امریکہ نے نہ صرف ہماری دلیل کو شرف قبولیت بخشا بلکہ فنڈز مہیا کرنے پر بھی آمادہ ہو چکا ہے۔
البتہ نیلم جہلم پراجیکٹ کے حوالے سے یہ جان کر دلی افسوس ہوا کہ یہ منصوبہ محض کرپشن اور نااہلی کی بناء پر نہ صرف غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوا بلکہ اس کی لاگت میں بھی 200 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ شنید ہے کہ اب یہ بدنصیب پراجیکٹ 2016ء میں مکمل ہوگا۔
یہ جان کر بھی شدید صدمہ پہنچا کہ قومی سطح پر بجلی کی ترسیل کے لئے موثر انفراسٹرکچر سرے سے موجود ہی نہیں۔ یعنی اگر آج کسی معجزے کی بناء پر پورے ٓکے پورے 18000 میگاواٹ بھی نیشنل گرڈ میں شامل کردیئے جائیں تو دقیانوسی دور کی تاریں، کھمبے، گرڈ اور ٹرانسفارمر اس فراوانی کے متحمل ہی نہیں ہو پائیں گے اور پورے ملک کا فیوز یوں اڑے گا جس طرح ڈاکوؤں کو دیکھ کر جنوبی پنجاب میں پولیس کے ہاتھوں کے طوطے اڑتے ہیں۔ مصدق ملک کی پیش کردہ بریفنگ میں اعادہ کیا گیا کہ بجلی کی پیداوار بڑھنے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر بھی بنتا چلا جائے گا۔
چند نئی اور دلچسپ اصلاحات برطانیہ و دیگر یورپی ممالک میں رائج پری پیڈ (Pre-paid) انرجی کارڈ نظام کی مقبولیت کو مدنظر رکھتے ہوئے موجودہ حکومت پری پیڈ میٹر متعارف کروانے جارہی ہے۔ یعنی اگر آ پ کا میٹر عدم ادائیگی کی وجہ سے کاٹ دیا گیا ہے ۔ تو آپ سابقہ میٹر کو ازسرنو چالو کروانے کے مراحل سے گزرتے وقت بجلی جیسی نعمت سے یکسر محروم نہ رہیں بلکہ اس عبوری مدت کے لئے ایک عدد ”نگران میٹر“ حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ اس نگران میٹر کو ”نجم سیٹھی میٹر“ کے نام سے پکارا جائے تو بہتر ہے۔ایک رپورٹ میں یہ دلچسپ انکشاف بھی ہوا ہے کہ اگر پورے ملک کے 50 ملین یعنی پانچ کروڑ عام بلب تبدیل کر کے ان کی جگہ انرجی سیور لگا دیئے جائیں تو اس ایک عمل سے سیدھی سیدھی 1000 میگاواٹ کی بچت ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے ساٹھ ہزار انرجی سیور بلب امپورٹ بھی کئے جاچکے ہیں۔بریفنگ میں یہ عندیہ بھی دیا گیا کہ تمام بڑے کمرشل پلازے اور بزنس سنٹر بہرصورت رات آٹھ بجے بند کردیئے جائیں تو لوڈشیڈنگ میں خاطر خواہ کمی کی جاسکتی ہے۔اسی طرح لائن لاسز کے حوالے سے بتایا گیا کہ بجلی چوری اور اس سے ملتے جلتے معاملات کی تمام تر ذمہ داری متعلقہ ایکس ای این پر ڈال جائے گی۔ اس خوش خیالی کا اظہار بھی کیا گیا کہ جب دو چار ایکس ای این صاحبان کا گھونٹ بھرا گیا تو حالات خود بخود ٹھیک ہونے لگیں گے۔وزیراعظم نے تھر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے از خود بتایا کہ بھارت کے پاس جو کوئلہ ہے وہ تھر کے کوئلے کا ایک چوتھائی ہے اور اس کی کوالٹی بھی بالکل وہی ہے جو ہمارے یہاں پائے جانے والے تھر کوئلے کی ہے۔ مگر بھارت نے اپنی تھرمل انرجی کا تقریباً نوے فیصد تیل سے کوئلے پر منتقل کرلیا ہے۔ اگر بھارت یہ سب کچھ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے ،ہیں جی؟
تازہ ترین