براعظم افریقا کے مغرب میں واقع’’سینیگال‘‘ سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول نگار اور فلم ساز ’’عثمان سیمبین‘‘نے لکھنے کے شعبے میں مختلف اصنافِ ادب، بالخصوص ناول نگاری میں نام کمایا، جبکہ فلم نویسی اور افسانہ نگاری بھی کی۔ فلم سازی میں پروڈیوسر، ہدایت کار اور اداکارکے طور پر مصروف عمل رہے۔ افریقی سینما میں ان کو’’بابائے سینما‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کی کہانیوں کو دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا، جن میں فرانسیسی اور انگریزی سرفہرست ہیں۔
ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مدرسے اوراسکول گئے۔ اسکول کی تعلیم ادھوری رہ گئی، پھرکچھ عرصہ والد کا ہاتھ بٹایا، ان کے والد پیشے کے لحاظ سے ماہی گیر تھے۔
1938 میں اپنے آبائی علاقے سے ملک کے دارلحکومت ’’ڈاکار‘‘ آگئے اور وہاں مختلف نوعیت کی ملازمتیں کیں۔ 1944 میں فرانسیسی فوج کی مقامی’’فری فرنچ فورسز‘‘ سے وابستہ ہوگئے اور دوسری عالمی جنگ تک اپنے ملک اور دیارِ غیر میں مختلف محاذوں پر برسرپیکار رہے۔ جنگ کے خاتمے پر، وطن واپسی ہوئی۔ 1947 میں ریلوے پٹڑی بچھانے کا ملک گیر منصوبہ شروع ہوا، تو عثمان اس کا حصہ بن گئے۔ یہاں ہونے والے تجربات کی بنیاد پر، انہوں نے اپنا نیم سوانحی ناول’’گاڈز بٹس آف ووڈ‘‘ لکھا، جس کو بہت شہرت ملی۔
چالیس کی دہائی کے آواخر میں عثمان فرانس چلے گئے، وہاں دوران ملازمت’’فرانسیسی ٹریڈ یونین تحریک‘‘ کا حصہ بنے اور کمیونسٹ پارٹی کے مقامی دھڑے میں شامل ہوگئے۔ انہوں نے افریقا سے تعلق رکھنے والے معروف انقلابی دانشور’’کلائوڈ میکے‘‘ اور معروف مارکسسٹ ’’جیکولین رومین‘‘ کو دریافت کیا، ان کے فکری اثرات قبول کیے، عملی زندگی میں ان کا استعمال بھی کیا۔ فلم سازی کے شوق میں روس جاکر فلم سازی کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرکے وطن واپس لوٹے۔
1956 میں عثمان کا فرانسیسی زبان میں لکھا ہوا پہلا ناول’’لی ڈوکرنوئر‘‘ اشاعت پذیر ہوا، اس کے لغوی معنی ایک کالے مزدور کے ہیں۔ ناول میں فرانس میں بطور افریقی مزدور، جن تعصبات کا سامنا کیا، ان کوبنیاد بناکر ناول کی کہانی ترتیب دی۔ 1957میں ان کا دوسرا ناول’’اے میرے پیارے ملک اور لوگو‘‘ تھا، جو ایک کسان کی کہانی تھی۔ اس ناول کو عالمی پذیرائی ملی، خاص طور پر کمیونسٹ ممالک سوویت یونین ، چین اور کیوباکی طرف سے سراہا گیا۔ انہوں نے جہاں اپنی کہانیوں میں فرانسیسی آقائوں کے تعصبات کو موضوع بنایا، وہیں افریقی اشرافیہ کی زبوں حالی پر بھی مفصل بات کی۔
اس سلسلے میں ان کا ایک ناول ’’ژالا۔Xala‘‘ بھی ہے، جس میں انہوں نے ایسے ہی افریقی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کردار کو منعکس کیا۔ یہ کردار ایک تاجر کا تھا، جس نے تین شادیاں کیں۔ ناول نگار نے اس کی بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اور بشری کمزوریوں کو احسن طریقے سے قلم بندکرتے ہوئے عمدہ ناول لکھا۔ ایک فرد کی جسمانی کمزوری اور نقص سے مقامی حکمرانوں کی بدعنوانی اوراخلاقی نقائص کو بہترین طریقے سے پیش کیا گیا۔
1973 میں یہ ناول فرانسیسی زبان میں چھپا، تین سال بعد انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا۔ اس ناول پر عثمان نے خود ہی فلم بنائی، جس کو 1975 میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا۔ انہوں نے اس فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے علاوہ ہدایات بھی دیں۔ فلم میں مقامی اداکاروں اور ہنرمندوں نے کام کیا، کچھ غیر افریقی ہنرمندوں کی خدمات بھی لی گئیں۔ یہ فلم افریقا کے علاوہ، روس اور امریکا میں بھی نمائش پذیر ہوئی۔ سینیگال کی تاریخ میں اس ناول اور فلم کی بے حد اہمیت ہے۔ نوآبادیاتی افریقا کی آزادی کے بعد، سینماکی تاریخ میں، عثمان ہی وہ سب سے پہلے فلم ساز ہیں، جنہوں نے بین الاقوامی شناخت حاصل کی۔
’’عثمان سیمبین‘‘ نے 4ناول اور بہت ساری مختصر کہانیاں لکھیں، جن کے متعدد مجموعے بھی شائع ہوئے۔ انہوں نے اپنے فلمی کیرئیر میں 13 فلموں کی ہدایات دیں، 11 فلمیں لکھیں، 4 فلموں میں اداکاری بھی کی، جبکہ 3 فلمیں پروڈیو س کیں۔ یہ ایک ایسے افریقی ادیب اور فلم ساز ہیں، جنہوں نے ایک پس ماندہ سماج میں رہتے ہوئے ادب کی بلندی کو چھویا۔
اپنے ملک کو فرانسیسی تسلط میں دیکھا، پھر آزادی حاصل ہوئی تو اپنے ہی ہم وطنوں کو بدعنوانی کرتے اور ملک دشمن رویوں کو اپناتے دیکھا، جس سے ان کو ایسامحسوس ہوا کہ صرف چہرے بدلے ہیں نظام نہیں بدلا۔ اسی لیے بطور ادیب اور فلم ساز پہلے اپنے آقائوں کے تعصبات اور پھر افریقی اشرافیہ کے اخلاقی جرائم کو موضوع بنایا۔