دستک بڑھنے پہ وہ دروازے کی جانب دوڑی۔ ’’ثانیہ آپ یہاں…؟‘‘ اپنی دل فریب مسکراہٹ کے ساتھ اس نے سوال کیا۔ ’’کیوں محترمہ مَیں یہاں نہیں آ سکتی، آخر میری دوست کا گھر ہے، میرا بھی تو اس پہ کچھ حق بنتا ہے۔‘‘ ثانیہ نے کمرے میں بے تکلفی سے داخل ہوتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا اگر ایسا ہے، تو پھر ٹھیک ہے۔ مَیں ذرا کافی لے آؤں، پھر آرام سے باتیں کرتے ہیں۔ آج موسم بھی کتنا حسین ہے۔‘‘ ’’چلو ٹھیک ہے، لیکن ذرا جلدی آنا، مَیں بہت اہم کام کے سلسلے میں آئی ہوں۔‘‘
ابھی اُس نے کمرے سے قدم باہر رکھے ہی تھے کہ ثانیہ نے آواز لگائی۔ ’’کون سا اہم کام…؟‘‘ وہ الٹے قدموں واپس آگئی۔ ’’اصل میں مجھے ابھی میسیج ملا ہے کہ کل ہمارے گروپ کی پریزینٹیشن ہے۔ اور ہم نے ابھی تک بالکل بھی تیاری نہیں کی۔‘‘ ثانیہ کی پریشانی دیدنی تھی۔ ’’او ہو! یہ کون سا مشکل کام ہے۔ بے فکر رہو، مَیں ہوں ناں…‘‘ اُس نے پُرسکون انداز میں تسلی دی۔ ’’سچ میں اسراء…؟‘‘ ثانیہ نے خوش ہوتےہوئےپوچھا، حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ اسراء کےلیے پریزینٹیشن کبھی بھی باقی کلاس کی طرح دردسرنہیں رہی۔ وہ حقیقتاً ایک بہت اچھی پریزینٹر تھی۔
………٭٭………
’’گروپ نمبر4آر یو ریڈی… آپ تیار ہیں؟؟‘‘سر امتیاز نے پوچھا۔ ’’جی سر!‘‘ ثانیہ کی آواز اُبھری۔ اسراء تو اپنے خیالوں میں گم صُم سی بیٹھی تھی کہ ثانیہ کی آواز پہ فوراً کھڑی ہوئی اور پھر اگلے پندرہ منٹ کمرے میں مکمل خاموشی کے بیچ اُسی کی آواز گونجتی رہی۔ ساتھی طلبہ تو پھر بھی آگاہ تھے، البتہ سر نے اس خاموش سی لڑکی کا یہ رُوپ آج پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ وہ بھی تعریف کیے بنا رہ نہ سکے۔ ’’آج پوری کلاس ہی بہت اچھی تیاری کے ساتھ آئی۔ سب ہی نےاچھی پریزینٹیشنز دیں، لیکن گروپ نمبر 4 کی پریزینٹیشن کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔ مَیں آپ کو پندرہ میں سے پورے پندرہ نمبر دیتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئے۔ اب فرداً فرداً سب ہی اسراء کی تعریف کے لیے اُس کے پاس آ رہے تھے اور اسراء اپنی روایتی دل فریب مسکراہٹ سے سب کا شکریہ ادا کر رہی تھی۔
’’چلو ناں، اب کیفے چلتے ہیں۔‘‘ ثانیہ نے اُس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ وہ بےحد خوش تھی۔ البتہ اسراء کی مُسکراہٹ تو ہمیشہ ایسے ہی اُس کے چہرے کا احاطہ کیے رہتی، سو یہ اندازہ لگانا بہت مشکل تھا کہ وہ کب واقعی خوش ہے، اور کب اداس۔
………٭٭………
’’فن، فن کار کے انتہا کی پیداوار ہے۔ کوئی بھی فن یوں ہی وجود میں نہیں آجاتا۔ خیال کے پُرخار صحرا میں برہنہ پا تپتی ریت پہ قدم رکھ کر جھلسنا پڑتا ہے۔ دیوانگی کی دیوار پر ٹھوکریں لگا لگا کر دنیا سے بےگانہ ہونا پڑتا ہے۔ فن، ضبط کے تاریک کوٹھری میں قید ہو کر بےزبان جذبات کو زبان دے کر تخلیق پاتا ہے۔ انتہائی جُہد کے بعد جب خیالات معراج پا کے امر ہونے کی سعی کرتے ہیں تو فن سامنے آتا ہے۔ کل میری سابقہ مادرِ علمی میں مصوّری کی نمائش ہے۔ مجھے ہر قسم کی نمائش سے سخت نفرت ہےاور میری روح بھی قطعاً واہ واہ کی پرستار نہیں۔
میرا فن میری زندگی ہے، لیکن مجھے لوگوں کے تبصرے پسند نہیں۔ مجھے شہرت کی تمنّا نہیں میرا کام ، بس میرے جی کاقرار ہے۔ اور یہی قرار میری منزل بھی ہے۔ البتہ مَیں اپنے اساتذہ کو انکار نہیں کر سکتا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے اپنی روح کی وحشتوں اور اُدھڑے زخموں کی نمائش کرنا پڑے گی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی انتہاؤں کو دنیا کے سامنے پیش کرکے داد و تنقید وصول کرنی پڑے گی۔ مَیں خود کو مضبوط کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہوں تاکہ اپنی روح کی بےلباسی دنیا کے سامنے پیش کرکے، واہ واہ سُن سکوں یا اندر کی ویرانیوں اور اپنی انتہاؤں پہ زمانے کی تنقید سہہ پاؤں۔ دیکھنے والے تو اپنی پسند، ناپسندکا اظہار کرتے ہیں لیکن فن کار کے لیے ایک ایک لفظ بہت معنی رکھتا ہے۔ ‘‘ وہ بہت دیر سے خود ہی سے محوِ گفتگو تھا۔
………٭٭………
بظاہر ہر انسان دنیا میں جسمانی ضرورتوں کی کشمکش میں جیتا ہے۔ روح، جو انسان کا اصل ہے وہ جسم جیسے پردے میں ہمیشہ چُھپی رہتی ہے۔ لیکن روح چوں کہ اصل ہے، تو تقریباً ہر انسان کے اندر اس کی ضرورت وقتاً فوقتاً جاگتی رہتی ہے۔ روح کی ضروریات، جسمانی ضروریات کےپورا ہونے کے باوجود انسان کو بےچین رکھتی ہیں۔ قدرت کا اصول ہے کہ وہ روحانی تربیت کا انتظام کسی ٹھوکر کے ذریعےکرتی ہے۔ کیوں کہ قدرت کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہےکہ کس روح کی لہروں میں ارتعاش کس ٹھوکر کےلگنے سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اس ٹھوکر سے کچھ لوگ آج کی گھڑیوں ہی میں دفن ہو جاتے ہیں اور کچھ تاریخ میں امر۔
وہ عنزہ کے ساتھ ہال میں داخل ہو چُکی تھی۔ مصوّری میں اُسے بے حد دل چسپی تھی۔ وہ اِس سےقبل بھی کئی نمائشیں دیکھ چُکی تھی، لیکن اُسےسطحی قسم کی مصوّری کبھی نہیں بھاتی تھی۔ اور…آج کی تو پہلی تصویر ہی ایسی تھی کہ نایاب چند لمحے اُس سے اپنی نظرہی ہٹا نہ پائی۔ عنزہ کےمتوجّہ کرنےپہ وہ دوسری تصویر کی طرف پلٹی۔ ’’آج نمائش میں رکھی گئی یہ تمام پینٹنگز شہر کے بہترین مصوّر اور ہماری یونی ورسٹی کے سابق طالب علم رسیم صاحب کی ہیں۔‘‘
دوسری پینٹنگ سفید رنگ کے پرندے کی تھی، جس کے پَروں سے لہو بہہ رہا تھا۔ نایاب کو محسوس ہوا، جیسے یہ لہو اصلی ہو۔ پَرکٹے پرندے کا درد اُسے اپنے درد کی طرح محسوس ہونے لگا۔ یوں لگ رہا تھا، جیسے وہ خود ایک پرندہ ہو، جس کی آزادی سلب ہو چُکی ہو اور پَر زنداں کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر لہولہان ہوگئے ہوں۔ شاید قدرت نے کسی کے ہاتھوں یہ شاہ کار محض اُسی کے لیے تخلیق کروایا تھا تاکہ وہ اِس میں اپنی روح کا عکس دیکھ لے۔ کائنات کا حقیقی مصوّر، زمین پہ موجودتخلیق کاروں سےوہی رنگ بھرواتا ہے، جیسے وہ چاہتا ہے۔ اور یہ رنگ کس کے لیے بھروائے جاتے ہیں، اِس کا فیصلہ بھی اُسی کے ہاتھ میں ہی ہے۔
اِس تصویر میں اُس کے لیے محض رنگ ہی نہیں، تصوّر کا ایک پورا جہان آباد تھا۔ ایک سحر تھا، جو اُس پہ طاری ہو چُکا تھا۔ اپنی ذات کے چُھپے رنگ کسی نقش میں دیکھ وہ اپنےحواس کھونے کو تھی کہ عنزہ نے اُس کے کاندھوں سے پکڑ کر اُسے سہارا دیا۔ ’’کیا ہوا نایاب!! تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ ’’ہاں میں ٹھیک ہوں۔ یہ بتاؤ یہ پینٹنگز کس کی ہیں؟ مصوّر کہاں ہے ان کا؟‘‘ ’’وہ سامنے، جو لوگوں سے لاتعلق باہر ہونے والی بارش میں کھویا ہوا ہے۔‘‘ عنزہ نے اُس کی توجّہ کھڑکی کی جانب مبذول کروائی۔ اُس کی نگاہیں ایک لمحہ ہی اُس جانب اٹھی تھیں لیکن روح کی لہروں کی فریکوینسی کسی اور روح کی لہروں سے ہم آہنگ ہو کر اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔ اندر کی دنیا میں طوفان برپا ہو چُکے تھے۔ سو، اب یہاں مزید ٹھہرنا اس مَن چلی لڑکی کے لیے ناممکن تھا۔
………٭٭………
’’جو نقش تھے پامال بنائے مَیں نے… پھر الجھے ہوئے بال بنائے مَیں نے …تخلیق کے کرب کی جو کھینچی تصویر …پھر اپنے خد و خال بنائے مَیں نے۔ (صادقینؔ )کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے، جیسے مَیں کسی افسانے کا کوئی انوکھا کردار ہوں یا پھر خود ایک مکمل افسانہ، جِسے حقیقی دنیا میں بھیج دیا گیا ہو۔ اور افسانہ نگار کہیں دُور بیٹھا افسانے کی پیش رفت سے محظوظ ہو رہا ہو یا پھر مَیں وقت کا وہ پہر ہوں، جو دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔ یا شاید رات کا وہ پرندہ، جو دن بھر سو کر سحر کے خواب دیکھتا ہے اور رات ہوتے ہی تعبیر کے لیےنکل پڑتا ہے۔ مَیں ریاضی کا کوئی آسان یا مشکل سوال نہیں، جسے بہرحال تم اپنے دماغ سے حل کر ہی لو گے۔
مَیں وہ پیچیدہ شاہ کارِ مصوّری ہوں، جسے دیکھ کرتم واہ واہ تو کر سکتے ہو، مگر اُس کے اسرار و رموز تمہاری سوچ کی وسعتوں سے کہیں پَرے ہیں۔ اُس کی اصل حقیقت سے صرف مصوّر ہی آگاہ ہے۔ مَیں حقیقت نہیں، ایک تصوّر ہوں۔ ایک کردار ہوں۔ میری زندگی اِس دماغ کی مرہونِ منّت ہے، جس میں، مَیں ایک خیال کے طور پہ سما رہا ہوں اور میرا خاتمہ بھی اِس دماغ پہ منحصر ہےکہ کب وہ مجھے سوچنا چھوڑ دےاور میری زندگی کا اختتام ہو جائے۔‘‘ وہ آج پھر خود ہی سے سوال و جواب میں الجھا ہوا تھا۔
’’کسی بھی خیال کو نقش کرنے سے پہلے مَیں اُسے کاغذ پہ اتارنے کی کوشش کرتاہوں کہ کائنات کے مصوّر نے بھی دنیا کے تصوّر میں رنگ بھرنے سے قبل قلم کے ذریعے اِس تصوّر کو لوحِ محفوظ میں رقم کر لیا تھا۔ آج کی رات یقیناً مجھ پہ بھاری ہو گی۔ میری روح کے راز آج سرِ بزم عیاں ہوئے ہیں۔ وہ راز، جو صرف میرے تھے۔ جب کبھی میری تخلیقات یوں دنیا کے سامنے آتی ہیں، میری بےچینی میں شدید اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن آج اس بےچینی سمیت یہ جو ہلچل اور کشمکش ہے، اِسے میں سمجھ نہیں پارہا۔ شاید افسانہ نگار، افسانے کے اس کردار میں کسی بڑی تبدیلی کا خواہاں ہے۔ مگر… مَیں اس تبدیلی کو سمجھنے سے ابھی قاصر ہوں۔ ‘‘
………٭٭………
وہ دونوں یونی ورسٹی کیفے ٹیریا میں پہنچ چُکی تھیں۔ ثانیہ بےحد خوش تھی کہ ایک اہم کام مکمل ہوا، لیکن اسراء پہ اب چپ طاری ہو چُکی تھی۔ جانے کیوں ہر کام یابی، ہرخوشی کے موقعے پہ اُداسی و خاموشی اُس کا یوں ہی گھیراؤ کر لیتی۔ منزل کےقریب پہنچتے ہی وہ منزل کو فریب سمجھ کےاُس سے دور ہونے لگتی۔ وہ صرف راہوں کی دیوانی تھی، منزلیں کبھی اُسے چین و قرار نہ دے پائیں۔
’’یہ تمھیں کیا ہوا اسراء…؟‘‘ ثانیہ نے اُسےحیرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’مجھے… مجھے تو کچھ نہیں ہوا۔‘‘ اسراء نے فوراً اسی دل فریب مُسکراہٹ کا خول خود پہ چڑھا لیا۔ وہ جانتی تھی کہ اُس کا حقیقی رُوپ کسی کے لیے بھی قابل برداشت نہیں ہو گا، چاہے وہ اُس کی بہترین سہیلی ہی کیوں نہ ہو۔ اکیلا انسان کہاں تک چل پاتا ہے اور کب تک، اِس لیے وہ ہمیشہ خود کو ایک پردے میں پوشیدہ رکھتی۔ لیکن کبھی کبھی انسان اس سراب کا بوجھ اُٹھا اُٹھا کر بھی تھک جاتا ہے۔ اس پردے کی گھٹن سے چھٹکارا پانے کی سعی کرتا ہے، لیکن صرف چند لمحوں کے لیے،ورنہ تو پھر اُس کے لیے جینا ناممکن ہو جائے۔
’’السّلامُ علیکم!‘‘ وہ دونوں اپنی سوچوں میں محو تھیں، جب یونی ورسٹی سوسائٹی کی جنرل سیکرٹری کی آواز اُنھیں خیالوں کی دنیا سے باہر کھینچ لائی۔
’’وعلیکم السّلام!!‘‘ اسراء نے مُسکراتے ہوئےجواب دیا۔ اُس کی مُسکراہٹ اُس کی شخصیت کا خاصّہ تھی کہ اِسی مُسکراہٹ ہی کی وجہ سے تو وہ ہر دل عزیز تھی۔
’’آپ لوگوں کو اطلاع دینی تھی کہ کل ہماری سوسائٹی کے زیرِ اہتمام یونی ورسٹی میں ایک اہم نشست ہے۔ نشست کا موضوع ’’ذہنی اور روحانی تربیت اور ہمارا نظامِ تعلیم‘‘ ہے۔ ہم نے مُلک کے اہم ترین مفکّرین کو دعوت دی ہے، مگر ہمیں چند ذہین طلبہ کی بھی ضرورت ہے، اس نشست کے لیے۔ اگر آپ دونوں اس نشست کا حصّہ بننا چاہیں تو ہمیں خوشی ہو گی۔‘‘
اسراء کا دل چاہا کہ انکار کردے لیکن موضوع سن کرحامی بھرلی۔ شاید پیاسی روح کو کچھ سیرابی ملے۔ وہ اکثر علم کی طلب میں ایسی کئی محافل کا حصّہ بنتی رہی ہے، لیکن ہر دفعہ پرانی باتیں، عمومی افکار ہی کا تذکرہ ہوتااور اُس کی پیاس کم ہونے کے بجائے شدید ہونے لگتی ہے۔
………٭٭………
’’سر! یہ رسیم کا کیا مطلب ہے؟‘‘ نایاب کے سوال پر سر نے شاعری کی اصلاح کرتے ہوئے سر اٹھایا۔ اُس کےاس سوال پہ عنزہ نے بھی اُسےحیرت سے دیکھا تھا۔ ’’رسیم کا مطلب ہے، نقش بنانے والا، انگریزی میں جسے ہم پینٹر کہتے ہیں۔‘‘ ’’اس کا مطلب ہے واقعی نام شخصیت پہ اثر کرتے ہیں؟‘‘ نایاب نے حیران ہوتے ہوئے ایک اور سوال داغ دیا۔ ’’بیٹا! الفاظ میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ جیسے کچھ الفاظ جب ہم سُنتے ہیں تو بھڑک اٹھتے ہیں۔ کچھ پہ خوش ہوتے ہیں۔ شاعری ہی کو لےلیں۔
شاعری کیا ہے، الفاظ کا معمول سے ہٹ کر استعمال۔ یہ جو آپ نے لکھا ہے اگر آپ سیدھے سیدھے لفظوں میں کہیں گی تو کچھ خاص اثرنہیں ہوگا، لیکن جب اِن ہی عام سے الفاظ کو شاعری کا روپ ملتا ہے تو یہ امر ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی نام بھی حروف کا مرکب ہیں۔ ہر حرف کی الگ لہریں ہیں۔ اِن لہروں اور مطلب میں ایک خاص موافقت پائی جاتی ہے اور یہ لہریں مل کر انسان کی شخصیت کو ویسا ہی بنا دیتی ہیں، جیسا کہ اس کےنام کا مطلب ہو۔‘‘
’’لیکن سر! اکثر لوگ اپنے نام کے برعکس بھی تو ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پہ اگر نعیم نام کا کوئی شخص غلط کاموں میں ملوث ہوکر اپنے گھر والوں کے لیے نعمت کے بجائے زحمت بن جائے تو…!!‘‘’’ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اُس کی پیدائش پہ گھر والوں پہ کچھ خاص فضل کیا ہو، جس کا ادراک گھر والوں کو نہ ہو۔ یا ہو سکتا ہے، اُس کی برائی ہی کسی کے حق میں اُسے نعمت ثابت کرے۔ جیسے اگر وہ کسی کےقتل میں ملوث ہو، تو وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرے، جو کسی اللہ کے بندے کے لیے پریشانی کا باعث ہو۔ بیٹا! جو نظر ہمارے پاس ہے، وہ صرف ظاہر ہی دیکھ پاتی ہے۔ ہم اس ظاہر دنیا کے پردے کے پیچھے مخفی دنیا کو نہیں دیکھ پاتے۔ اُسے دیکھنے کے لیے باطن کی نگاہ چاہیے، جو چند مخصوص لوگوں ہی کے پاس ہوتی ہے۔ ‘‘
وہ اپنی اصلاح شدہ نظم لےکر واپس پلٹی، تو عنزہ اُسے خون خوار نگاہوں سے گھور رہی تھی۔ ’’کیا ضرورت تھی، ایسے سوالات کرنےکی۔ اور سر بھی پتا نہیں کہاں کی فلاسفیز لے کے بیٹھ گئے تھے۔ چلو، بہت دیر ہوگئی ہے۔‘‘ ’’عنزہ کیا مَیں بھی اپنے نام کی طرح نایاب ہوں گی؟‘‘ نایاب نے پوچھا۔ ’’کیا ہوگیا ہے۔ تم اب تک اُس پینٹنگ اور پینٹر کے سحر میں ہو۔ پینٹنگ تک تو بات ٹھیک ہے، لیکن یہ پینٹر کا کیا معاملہ ہے آخر…؟’’عنزہ! جانتی ہو، تخلیق کا حُسن ہمیں اکثر اس کے خالق تک لے جاتا ہے۔ تخلیق دراصل خالق کا عکس ہوتی ہے کہ خالق خود بھی کہیں نہ کہیں تخلیق میں پوشیدہ ہوتا ہے۔‘‘ (جاری ہے)