• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ چین کے اِرد گرد بڑے پیمانے پر اسٹرٹیجک نوعیت کی شراکت داریاں قائم کر کےچین کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ وہ نہ صرف معاشی و تجارتی شعبے میں چین سے مقابلہ کرنے کی مکمل تیاری کی حالت میں ہے بلکہ کسی نوعیت کی عسکری مڈ بھیڑ کے لئے بھی اس نے جگہ جگہ اپنے قدم جمائے ہوئے ہیں۔ اگر ہم گزشتہ کچھ عرصے کی امریکی شراکت داریوں پر نظر دوڑائیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آئے گا کہ امریکہ نے جاپان، انڈیا، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فلپائن اور ویتنام سے بڑے پیمانے پر ایسے معاہدے کئے ہیں کہ جن کو عرفِ عام میں چین کے گھیراؤ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اسی گھیراؤ کی پالیسی کے ذیل میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کا تازہ ترین اسٹرٹیجک معاہدہ بھی ہے جس کے حوالے سے برملا یہ کہا جا رہا ہے کہ اِس معاہدے کا ہدف چین ہے۔ یہ معاہدہ چین کے لئے جنوبی چین سمندر اور تائیوان اسٹریٹ میں بھی مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ اگر برطانیہ اور آسٹریلیا کی حالیہ پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ وہ اس خطے میں اپنے کردار اور اثر و رسوخ کو بڑھانے میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ خواہش امریکہ کی موجودگی بلکہ سرپرستی کے بغیر پوری نہیں ہو سکتی تھی اور امریکہ کو اس جگہ پر اپنی موجودگی کی ان دونوں ممالک سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس لئے امریکہ نے یورپی یونین اور بالخصوص فرانس کی شدید ناراضی کے باوجود یہ معاہدہ کیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرانس اس معاہدے سے کیوں ناراض ہو گیا ہے تو اس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ آسٹریلیا نے فرانس سے ایٹمی آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ کر رکھا تھامعاہدے کی مالیت 100ارب ڈالر کے قریب تھی مگر آسٹریلیا نے امریکہ اور برطانیہ سے معاہدہ کرنےکے بعد فرانس سے ایٹمی آبدوزیں خریدنے کا معاہدہ ترک کرلیا کیونکہ امریکہ اور برطانیہ نے آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوزیں مہیا کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ فرانس نے احتجاجی طور پر امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفرا کو واپس بلا لیا ہے۔ یورپی یونین میں بھی اِس حوالے سے ناراضی کا عنصر بہت نمایاں ہے کیونکہ ان کو بھی شکوہ ہے کہ امریکہ نے اس اہم ترین معاہدے کے وقت ان سے مشاورت نہیں کی ۔امریکہ دنیا میں اس حوالے سے بہت سخت رویہ رکھتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کو دنیا کے دیگر ممالک حاصل نہ کریں مگر اس معاہدے میں اس بات کا خیال نہیں کیااور ایک ایسے ملک کو یہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی طرف چل پڑا ہے جو کہ غیرایٹمی ملک ہے۔ اس سے قبل ایٹمی آبدوزیں دنیا کے چھ ممالک کے پاس موجود ہیں جن میں امریکہ کے پاس 68روس کے پاس 29چین کے پاس 12برطانیہ کے پاس 11فرانس کے پاس 8جبکہ انڈیا کے پاس ایک ہے۔ اِس معاہدے کی رو سے کروز میزائل تک فراہم کیے جائیں گے جبکہ سائبر سیکورٹی اور مصنوعی ذہانت بھی اِس معاہدے کے اہم نکات میں شامل ہیں۔ اِس کے علاوہ امریکہ نے ایک اور اتحاد فائیو آئیز کے نام سے قائم کر رکھا ہے جس میں کینیڈا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں اور وطنِ عزیز کے لئے اِس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل یہ حقیقت ہے کہ امریکہ نے بھارت سے بھی ایک معاہدہ کیا ہوا ہے کہ وہ اس کی فضائیہ کو اپنے سیٹلائٹ ڈیٹا تک رسائی فراہم کرتا رہے گا جس کے نتیجے میں بھارتی فضائیہ کے لئے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے میں بہت سہولت حاصل ہوگی کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ اس معاہدے کا ہدف چین ہے لیکن اس میں کیا شبہ ہو سکتا ہے کہ چین کے حوالے سے بھارتی تیاریوں سے زیادہ یہ صلاحیت پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان نے جو کواڈ اسٹرٹیجک معاہدہ کر رکھا ہے اس کا بھی اجلاس اگلے ہفتے امریکہ میں منعقد ہوگا جس میں بھارتی وزیراعظم امریکی صدر سے بھی ملاقات کریں گے۔ باقی ممالک کے اہداف کچھ بھی ہوں لیکن بھارت کا مرکزی ہدف جنوبی ایشیا میں مکمل تھانے داری حاصل کرنا ہے جس میں بہرحال اس کا حریف پاکستان ہی ہے۔ اس كواڈ کی متوقع میٹنگ کے اثرات پاکستان پر ظاہر ہوں گے، امریکہ ویسے ہی افغانستان کے انخلا کے بعد پاکستان سے تعلق کا از سر نو جائزہ لینے کی بات کر رہا ہے جس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ وہ ماضی کی طرح کسی پریسلر ترمیم کی مانند پاکستان کو پریشان کرنا چاہتا ہے اور ہماری طرف صورت حال یہ ہے کہ اتنے بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت تو درکنار ملک میں آ چکی کرکٹ ٹیم کا دورہ بھی منعقد کروانے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔

تازہ ترین