• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگست کے اوائل میں طالبان کابل کے اردگرد کے صوبوں پر قابض ہونے لگے۔ افغان صدر اشرف غنی، نائب صدر امرﷲ صالح اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمدﷲ محب تندوتیز بیانات دے کر ملک کا دفاع کرنے اور زندگی کی آخری سانس تک لڑنے کا عزم ظاہر کررہے تھے لیکن عملاً طالبان کو کہیں بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا تھا۔ 13 اگست کو طالبان کابل کے دروازے پر پہنچ گئے تھے لیکن انہوں نے اعلان کیا کہ وہ شہر میں داخل نہیں ہوں گے۔ اشرف غنی اور ان کی ٹیم کے دعوئوں کی روشنی میں تجزیہ کار کابل میں خونریزی کا خدشہ ظاہر کررہے تھے لیکن اشرف غنی کی مشاورت کا دائرہ چند افراد تک محدود تھا۔تاہم 14 اگست کی صبح اشرف غنی نے سابق افغان صدر حامد کرزئی، عبدﷲ عبدﷲ، یونس قانونی اور دیگر افغان رہنمائوں کو مشورے کے لئے بلایا۔ صرف استاد سیاف موجود نہیں تھے کیونکہ وہ علاج کے لئے بیرون ملک گئے تھے۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے تین گھنٹے تک ان کے ساتھ مشاورت کی اور ان کو رتی بھر یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ ملک چھوڑنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ قطر معاہدے کے بعد یہی رہنما ان سے درخواست کررہے تھے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کا اختیار انہیں دے دیں کیونکہ حامد کرزئی کی ثالثی سے اشرف غنی اور عبدﷲ عبدﷲ کے مابین طے پانے والے معاہدے کی رو سے پیس کونسل کے سربراہ عبدﷲ عبدﷲ تھے۔ اس روز پہلی مرتبہ انہوں نے عبدﷲ عبدﷲ اور ان کے ساتھ آئے ہوئے رہنمائوں کو طالبان کے ساتھ ڈیل کا مکمل اختیار دیا۔ ان سے کہا کہ وہ فوراً قطر چلے جائیں اور طالبان کے ساتھ انہوں نے جو بھی فیصلہ کیا، وہ انہیں قابل قبول ہوگا لیکن ان لوگوں کو رتی بھر یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ خود ملک چھوڑنے کی تیاری کرچکے ہیں۔ مذکورہ رہنما اشرف غنی کے ساتھ میٹنگ کے بعد قطر جانے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ طالبان کے قطر دفتر سے رابطہ کیا اور سفر کے لئے ٹکٹوں کا انتظام کرنے لگے لیکن اسی روز شام کو انہیں اطلاع ملی کہ اشرف غنی تو ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ سب لوگ ہکا بکا رہ گئے تاہم غنی کے برعکس حامد کرزئی، گلبدین حکتمیار اور عبدﷲ عبدﷲ نے ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وڈیو پیغامات جاری کئے کہ وہ کہیں نہیں جارہے اور کابل میں اپنے لوگوں کے ساتھ ہی موجود ہوں گے۔ دوسری طرف اشرف غنی نے اپنی کابینہ کے اراکین کو بھی اعتماد میں نہیں لیا اور فرار کے منصوبے میں صرف اپنے سیکرٹری ڈاکٹر فضلی اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر حمدﷲ محب کو ساتھ لیا۔ اسی شام کچھ افراد اور بہت سارا مواد بھی انہوں نے ازبکستان منتقل کیا۔ وہ ہیلی کاپٹر میں رات کے وقت بغیر لائٹس استعمال کئے ازبکستان میں لینڈ کررہے تھے جس پر ازبکستان کے حکام حیران تھے۔ اشرف غنی اور ان کے دو ساتھیوں نے اپنا سامان کاروں میں ائرپورٹ منتقل کیا اور خود ہیلی کاپٹر کے ذریعے ائرپورٹ گئے۔ انہوں نے بیرون ملک جانے کے لئے آریانا ائرلائن کا جہاز بھی استعمال نہیں بلکہ نجی ائرلائن کے جہاز کو چارٹرڈ کیا تھا۔ حالانکہ امریکیوں کے ساتھ ان کا طے پایا تھا کہ اگر حالات زیادہ خراب ہوئے تو وہ امریکی سفارتخانے منتقل ہوں گے لیکن نہ جانے کیوں انہوں نے امریکیوں سے بھی معاملے کو خفیہ رکھنے کی کوشش کی۔ رات گئے ان کے جہاز نے ازبکستان میں لینڈ کیا۔ جب وہاں کے حکام کو پتہ چلا تو انہوں نے اپنے صدر کو نیند سے جگا دیا۔ وسط ایشیا میں چونکہ ازبکستان امریکہ کے زیادہ زیراثر ملک سمجھا جاتا ہے اور اشرف غنی بھی امریکہ کا بندہ تصور ہوتے تھے، اس لئے دونوں کی دوستی پورے خطے میں مشہور تھی۔ ازبک صدر جو کچھ عرصہ قبل ان کے قریبی دوست تھے، اپنے ملک آئے ہوئے اشرف غنی اور ان کی اہلیہ سے تو ملے لیکن ان کے حکام ان سے ازبکستان کے ویزے کا پوچھتے رہے اور یہ بھی شکوہ کرتے رہے کہ انہوں نے بغیر ویزے کے ان کے ملک کا سفر کیوں کیا۔ دوسری طرف حمدﷲ محب اور ڈاکٹر فضلی کو جہاز سے بھی اترنے نہیں دیا گیا۔ اِس دوران اشرف غنی اپنے سابقہ دوست کا منت ترلہ کرکے کہتے رہے کہ وہ انہیں اپنے ملک میں قیام کی اجازت دیں لیکن ازبک صدر نے خود فیصلہ کرنے کی بجائے مشترکہ دوست امریکہ سے رابطہ کیا۔ امریکیوں نے بھی اشرف غنی کو مزید اپنا دوست ماننے سے انکار کیا اور ازبک صدر سے ازخود فیصلہ کرنے کا کہا۔ ازبک صدر کو احساس ہوا کہ ایک طرف امریکی ان کو مزید دوست نہیں سمجھ رہے اور دوسری طرف ان کو اپنے ہاں قیام کی اجازت دینے سے طالبان ناراض ہوں گے، اس لئے انہوں نے اپنے سابقہ دوست اشرف غنی کو اپنے ملک سے نکل جانے کا کہا۔ واضح رہے کہ چند روز بعد ازبک حکومت نے وہ ہیلی کاپٹر اور دیگر سامان بھی طالبان کے حوالے کیا جو اشرف غنی نے ازبکستان منتقل کئے تھے۔ چنانچہ اس کے بعد مختلف ذرائع سے اشرف غنی نے دبئی کے حکام سے رابطہ کیا جنہوں نے انہیں وہاں آنے کی اجازت دی اور یوں وہ بوجھل دل کے ساتھ دبئی کی طرف روانہ ہوگئے۔ دبئی پہنچنےکے بعد وہ ایک ٹویٹ اور ایک وڈیو پیغام جاری کرچکے ہیں لیکن مزید خاموشی سے افغانستان کے حالات کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف سقوط کابل کے بعد امریکی صدر نے طالبان یا ان کے کسی سپورٹر ملک پر اپنا نزلہ اس قدر نہیں گرایا جتنا کہ اشرف غنی پر گرایا۔

میں ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ اس سلوک کی روداد کو بھی سینے میں ہی دفن رکھتا لیکن مجبوراً اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اس سے پاکستان اور افغانستان کے موجودہ حکمران سبق لیں۔ اشرف غنی کے اس انجام کا پہلا سبق یہ ہے کہ اقتدار کس قدر بے وفا اور عارضی چیز ہے اور جو لوگ اس پر اتراتے ہیں، انہیں بہت جلد پچھتانا بھی پڑتا ہے۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ سیاست اور سفارت کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ اس کی ساری دوستیاں اور تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ آج حکمران کی حیثیت میں جو لوگ آپ کو دوست، مسیحا اور بھائی قرار دیتے ہیں، اقتدار ہاتھ سے جاتے ہی، وہ آپ کی جگہ نئے آنے والوں کے ساتھ یہ تعلق استوار کرلیں گے۔ تیسرا سبق یہ ہے کہ امریکہ ہو، روس یا کوئی اور طاقت، ان پر تکیہ کرنے کی بجائے جو حکمران اپنے لوگوں سے جڑے رہتےہیں، ان کے مفادات کا تحفظ کرتے اور ان پر تکیہ کرتے ہیں، وہی لوگ عزت سے رخصت ہوتے ہیں۔ اشرف غنی افغانستان چھوڑنے تک میڈیا اور سوشل میڈیا میں نہایت مقبول تھے۔ لیکن چونکہ زمین پر حقائق مختلف تھے، اسے لئے جب ان سے سامنا کرنا پڑا تو وہ مناسب طریقے سے ملک چھوڑنے کا راستہ بھی نہ نکال سکے۔ چنانچہ چوتھا سبق یہ ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی بجائے زمینی حقائق کو دیکھ کر اپنی حیثیت اور صلاحیت کے بارے میں رائے قائم کرنی چاہئے۔

تازہ ترین