’’غضب خدا کا میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ مملکت خدادا د پاکستان میں یہ دن بھی آئے گا۔کہاں گئے وہ لکھاری اور دانشور جو حکومتی اہلکاروں کو معمولی لغزشوں پر آڑے ہاتھوں لیتے تھے مگر اب کسی کو یہ توفیق نہیں ہو رہی کہ اِس موضوع پر قلم اٹھائے، سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔
خیر کوئی بات نہیں، میری غیرت ابھی زندہ ہے، میں اِس سازش کو بے نقاب کر کے چھوڑوں گا۔ اب ذرا دل تھام کر پڑھیے۔
اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اِس ملک کے طلبا کے لئے جو نصاب تیار کیا گیا ہے اُس کی نویں جماعت کی اسلامیات کی کتاب میرے سامنے ہے۔ یہ کتاب سرکار سے منظور شدہ ہے اور اِس کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا ہے کہ یہ نئے قومی نصاب کے مطابق شائع کی گئی ہے۔
اِسلامیات کی اِس کتاب میں منٹو کا افسانہ ’صاحب کرامات‘، بیدی کا افسانہ ’ کوارنٹین‘ اور منشی پریم چند کا افسانہ ’کفن ‘شامل ہے۔ یہی نہیں بلکہ غالب، حسرت موہانی اور مومن کی عشقیہ غزلیں اور ابن انشا اور پطرس بخاری کے مزاحیہ مضامین بھی اسلامیات کی اِس کتاب میںشامل ہیں‘‘۔
یہ تحریر جو آپ نے ابھی پڑھی ہے اسے میں نے واوین میں اِس لئے لکھا ہے کہ یہ جھوٹ ہے، ایسا کچھ نہیں ہوا، اسلامیات کی کوئی ایسی کتاب شائع نہیں ہوئی جس میں اردو ادب کی تحریریں یا شاعری ہو۔ یہ بات نا ممکن ہے کہ ایسی کوئی کتاب شائع ہو جائے کیونکہ اسلامیات کی کتاب میں اردو ادب یا کسی بھی دوسرے مضمون کی تحریروں کی کوئی توجیہہ نہیں ہو سکتی۔
یہ ’’جھوٹ ‘‘ لکھنے کی ضرورت اِس لئے پیش آئی کہ اِس سوال کا جواب تلاش کیا جا سکے کہ کیا اردو اور انگریزی کی نصابی کتب میں مذہبی مواد شامل کیا جانا ضروری ہے؟
ہمارے دائیں بازو کے دانشوروں کا مقدمہ یہ ہے کہ قومی نصاب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہئے، نصاب میں بچو ں کو ایسی کتب پڑھانی چاہئیں جن سے اُن میں دین سے قربت پیدا ہو اور وہ اچھے اور با اخلاق مسلمان بن سکیں۔
ہمارا قدامت پسند طبقہ نصاب کے بارے میں جو باتیں کر رہا ہے وہ عام آدمی کے لئے بہت کشش رکھتی ہیں، ہم 97فیصد مسلمان اِس ملک میں رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اسلامی تعلیمات کے مطابق ہی تعلیم حاصل کریں۔اُن کی یہ خواہش ناقابلِ فہم نہیں مگر کیا ِاِس کا یہ مطلب لیا جائے کہ اردو اور انگریزی کی کتب میں بھی اسلامیات ہی پڑھائی جائے ؟
پاکستا ن کے اقلیتی اساتذہ کی تنظیم نے نئے قومی نصاب کے تحت شائع ہونے والی چند ’ماڈل ‘ کتب کی پڑتال کی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اردو انگریزی کی درسی کتب میں کتنا مذہبی مواد شامل ہے۔
مثلاً پانچویں جماعت کی انگریزی کتاب 21فیصد اور چوتھی جماعت کی انگریزی کتاب 23فیصد مذہبی مواد پر مشتمل ہے۔ یہی حال اردو اور معاشرتی علوم کا بھی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ دلیل دے کہ اگر اردو کی کتاب میں حمد یا نعت شامل ہے یا بچوں کی کردار سازی کے لئے مذہبی تعلیمات کا حوالہ دیا گیا ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔
حرج اِس میں کوئی نہیں مگر ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر ہم مسلمان اِس ملک میں 97فیصد ہیں تو باقی تین فیصد غیر مسلم بھی ہیں اور آئین کی شق 22(1) کے تحت غیر مسلم طلبا کو اسلامی مواد پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اِس مسئلے کا حل محکمہ تعلیم نے یہ نکالا ہے کہ اِن کتب کے نیچے ایک جملہ لکھ دیا ہے کہ غیر مسلم طلبا کو یہ مواد پڑھنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غیر مسلم طلبا اُس وقت کلاس سے باہر نکل جایا کریں جب مسلمان بچے اسلامی تعلیم حاصل کر رہے ہوں؟ اور بالفرض محال اگر وہ باہر نکل بھی جائیں تو کیا اُن سے کوئی علیحدہ امتحان لیا جائے گا؟ یاد رہے کہ معاشرتی علوم میں ہم اپنے بچوں کو دو قومی نظریہ پڑھاتے وقت بتاتے ہیں کہ کانگریسی وزارتوں کے دور میں مسلمان بچوں کو اسکول میں وندے ماترم پڑھنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اب ہم کیا کر رہے ہیں ؟ہماری درسی کتب میں مسیحیت، بدھ مت، یہودیت یا ہندو مذہب سے متعلق مضامین کیوں نہیں ؟ کیا اِن مذاہب کے اربوں پیروکار دنیا میں نہیں بستے ؟ بقول میر :فر کچھ چاہئے اسلام کی رونق کے لئے، حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا۔مسلم اور غیر مسلم کی تفریق سے ہٹ کر ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اردو اور انگریزی کے مضامین طلبا کو مذہبی تعلیم دینے کے لئے نہیں پڑھائے جاتے، اُس کے لئے اسلامیات کا لازمی مضمون علیحد ہ سے ہے۔
اردو اور انگریزی کا نصاب ایسا ہونا چاہئے جسے پڑھ کر طلبا کو زبان سیکھنے میں مدد ملے اور انہیں ادب کی چاٹ لگے۔ جس طرح اسلامیات کے مضمون میں صرف اسلام اور قران پڑھایا جانا چاہئے اسی طرح اردو کے مضمون میں صرف زبان و ادب پڑھایا جانا چاہئے۔
کسی زمانے میں علامہ اقبال نے پانچویں سے آٹھویں تک کا اردو نصاب تیار کیا تھا۔ اِس نصاب کی آٹھویں جماعت کی کتاب کے فہرست مضامین ملاحظہ کیجیے : معرفت ِالٰہی (نظم ) جوش ملیح آبادی، دنیا کی دلچسپیاں (نثر) شیخ سر عبدل قادر، حب وطن (نظم) مولانا محمد حسین آزاد، قلعہ شاہ جہان (نثر) ڈاکٹر سر سید احمد خان مرحوم،رام چندر جی کا بن بان (نظم) پنڈت برج نرائن چکبست، مسٹر دادا بھائی نورو جی (نثر) پنڈت تلوکی ناتھ کول،جوگی (نظم)خوشی محمد ناظر،زبان کی تمیز اور اس کا فرق (نثر) سید احمد دہلوی،ریچھ کا بچہ (نظم)نظیر اکبر آبادی مرحوم،ستارہ (نظم) ڈاکٹر سر محمد اقبال،ایمان کا فیصلہ (نثر)منشی پریم چند۔یہ فہرست آگے بھی ایسی ہی ’سیکولر ‘ ہے۔ علامہ نے پانچویں، چھٹی اور ساتویں جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی نصابی کتب تیار کیں۔
آج اگر محکمہ تعلیم اردو کی ایسی درسی کتاب شائع کرے جس میں نہ صرف رام چندر جی اور راجہ ہریش چندر سے متعلق مضامین ہوں بلکہ ’ید ہشٹر کا پہلا سبق بھی شامل ہو تو ایسی کتاب کے مولف کے لئے ہم کم ازکم پھانسی کا مطالبہ کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ تمام مضامین علامہ اقبال نے اردو کی درسی کتب میں شامل کیے۔ وجہ یہ ہے کہ علامہ کو اچھی طرح علم تھا کہ بچو ں میں ادب سے لگاؤ کیسے پیدا کرنا ہے۔
انہیں زبان کی باریکیاں کیسے سمجھانی ہیں۔ اسی لئے اِن کتب میں جہاں حمد بھی شامل کی گئی وہاں اُس کے آخر میں زبان دانی کے سوالات پوچھے گئے نا کہ مذہبی۔
اب اگر کسی کو اقبال کی علمیت اور اسلام دوستی پر بھی شک ہے تو ایک فتوی ٰ اقبال کے خلاف بھی جاری کردے!