• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ دنیا کی بدبختی ہے کہ جھوٹ کو بہت تیزی کے ساتھ فروغ مل رہا ہے۔ ہر طرف جھوٹ کا بازار گرم ہے۔ اس لئے پوری دنیا بدامنی اور مہلک وبائوں کی لپیٹ میں ہے۔ احادیث مبارکہ کی سچائی کو دیکھیں کہ اب جھوٹ سمیت کسی برائی اور فحاشی کو برائی نہیں سمجھا جاتابلکہ اس کو کامیابی اور فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ حکومتیں بھی جھوٹ کو اپنی بقا اور مضبوطی کا وسیلہ سمجھنے لگی ہیں تو اندازہ لگائیں کہ عوام کا کیا حال ہوگا؟ اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پوری دنیا میں سیاست کی کامیابی کے لئے فیک نیوز کو اہمیت حاصل ہورہی ہے۔ فیک نیوز کا مطلب ہروہ خبر بلکہ افواہ ہے جس میں نہ کوئی حقیقت ہو اور نہ ہی اس کی کوئی بنیاد ہو۔ عجیب بات یہ بھی ہوگئی کہ لوگ سچ کی نسبت جھوٹ اور جھوٹی خبروں پر زیادہ یقین کرتے ہیں۔

بعض ممالک کو تو فیک نیوز بنانے اور پھیلانے میں خاص مہارت حاصل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا تعین فیک نیوز کی بنیاد پر ہوگا اور ہر وہ ملک اپنی خارجہ پالیسی اور مخالف ملک کو زیر کرنے میں زیادہ کامیاب تصور کیا جائے گا جو زیادہ جھوٹ اور جھوٹی خبریں پھیلانے میں مہارت رکھتا ہو۔ اب آہستہ آہستہ ایسے ممالک کے گروپ بھی بننے لگے ہیں۔ فی الوقت بھارت ایسے ممالک میں سرفہرست ہے جس کو جھوٹی اور من گھڑت یا فیک نیوز پھیلانے کا خاص تجربہ حاصل ہے۔ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے سے لے کر اب تک وہاں کے بارے میں جتنی فیک نیوز بھارت پھیلا رہا ہے اس کی پوری دنیا میں مثال نہیں ملتی لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ اب اس لعنت میں ہم خیال ممالک کے گروپ بھی بن رہے ہیں۔ اس کی بطور ثبوت تازہ ترین مثال کرکٹ ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارت نے ہم خیال ممالک کے ساتھ مل کر جھوٹی خبر پھیلائی کہ پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی نیوزی لینڈ کی ٹیم کو شدید خطرہ ہے۔ نیوزی لینڈ نے آئو دیکھا نہ تائو عین میچ شروع ہونے سے کچھ دیر قبل اپنی ٹیم کو واپس بلالیا۔ یہ اتنا آناً فاناً ہوا کہ نہ صرف دنیا بلکہ کیوی ٹیم کے کھلاڑی بھی ہکا بکا رہ گئے۔ حالانکہ کیوی ٹیم کی سیکورٹی جانچنے کے لئے ان کی سیکورٹی کے ارکان پہلے ہی پاکستان آکر سیکورٹی چیک کرکے اطمینان کے بعد کلیئرنس دے چکے تھے۔ اس کے باوجود عین وقت پر کیوی حکومت نے ایک فیک ای میل اور جھوٹی خبر کو بنیاد بناکر راہ فرار اختیار کی۔ حالانکہ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے کیوی ٹیم کی سیکورٹی کے لئے سخت ترین اقدامات کئے تھے۔ پاکستان کے اہم ترین انٹیلی جنس ادارے، جس کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے ،نے کیوی ٹیم کی سیکورٹی کے لئے زبردست انتظامات کئےتھے۔ ایسا کوئی خدشہ نہیں تھا کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کو کہیں سے کوئی خطرہ ہو۔ پھر کیا واقعی ایک جھوٹی ای میل اور فیک نیوز کو بنیاد بنا کر نیوزی لینڈ کی حکومت نے ایسی شرمناک حرکت اور بزدلی کا مظاہرہ کیا؟ حقیقت شایدکچھ اور ہے۔ نیوزی لینڈ حکومت کے بعد برطانیہ نے بھی اپنی ٹیم کو شیڈول کے مطابق بھیجنے سے انکار کردیا۔ یہی صورت حال شاید آسٹریلیا کی بھی ہے۔ اگر اس تمام صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو مذکورہ ممالک اسی گروپ کا حصہ ہیں جس کے بارے میں شروع میں عرض کیا تھا۔ یہ بات بھی عیاں ہوگئی ہے کہ یہ سیکورٹی کا معاملہ قطعاً نہیں تھا بلکہ باقاعدہ ایک سازش تھی اور بھارت اس سازش کا بنیادی محور تھا۔ اس سازش کونئی دلی سازش کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ہم بجائےفیک نیوز کا مقابلہ کرنے کے اس کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ ہم اپنے میڈیا کو اس جنگ کے لئے تیار اور مضبوط کرنے کےبجائے اس کا گلا گھونٹنے کے درپے ہیں۔ اگر ہمارے ہاں یہ حکومتی روش برقرار اور جاری رہی تو بھارت اور اس کے ہم خیال ممالک پاکستان کے خلاف مزید خطرناک فیک نیوز پھیلاتے رہیں گے ۔ حکومت اپنی طرف سے جتنے مرضی بیانات جاری کرے ان کو اہم نہیں سمجھا جائے گا، اہم ترین پاکستانی میڈیا کا کردار ہے۔ پاکستانی میڈیا ہی بھارت اور اس کے ہم خیال ممالک کی فیک نیوز کی راہ میں مضبوط دیوار بن سکتاہے۔ حکومت کو چاہئے کہ میڈیا کو دبانے کے بجائے اخبارات، الیکٹرانک میڈیا، صحافتی اداروں اور صحافیوں کے ساتھ محبت اور شفقت کا رویہ رکھے۔

ہم نے کیوی ٹیم کی واپسی اور برطانیہ، آسٹریلیاکی ٹیموں کے نہ آنے کو ملک کا اہم ترین ایشو بنالیا ہے۔ معلوم نہیں حکومت دانستہ یہ سب کچھ کررہی ہے یا نادانستہ لیکن ہر دو صورتوں میں اس معاملے پر غور کرنا چاہئے۔ یہ پاکستان کی ہار جیت یا بقا کا معاملہ ہر گز نہیں ہے۔ اب اس کو مزید اچھالنے اور ایشو بنانے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ حکومت اپنی جگہ اگر کچھ کرتی ہے توضرور کرے۔ لیکن ملک کے اصل معاملات حکومتی توجہ کے منتظر ہیں۔ اس وقت اہم ترین ایشوز خطے کی صورتحال، مہنگائی اور جنسی جرائم ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ایشوز ہیں۔ ملک کے اندر سیاسی افہام و تفہیم اور آئینی اداروں کی خودمختاری اہم معاملات ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بہترین تعلقات اورملکی و قومی معاملات پر اتفاق رائے انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی ملک کی معیشت میں کسان اور کاروباری افراد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسان کے مفادات اور اس کی عزت و توقیر کا خاص خیال اور انتظام ہونا چاہئے۔ کاروباری افراد کو بے جا تنگ کرنے اور دبانے سے کیا معاشی بہتری ممکن ہے؟ وفاقی وزارت خزانہ کے بعض اقدامات وقتی طور پر حکومت کو خوش کرنے کے لئے اور اپنی کرسی کی مضبوطی کا باعث تو ہوسکتے ہیں لیکن ان سے ملکی معیشت اور کاروبار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور تاریخ ایسے لوگوں کو کبھی اچھے نام سے یاد نہیں رکھتی۔ پتہ نہیں لوگ کیوں یقین نہیں کرتے کہ اقتدار تومحض چار دِن کی چاندنی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین