• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکٹرونک ووٹ مشین دھاندلی کا توڑ ہوسکتی ہے؟

کراچی(مظہرعباس)نک چیزمین اور برائن کلاز اپنی تحقیقی کتاب" الیکشن میں دھاندلی کیسے کی جائے "میں لکھتے ہیں" اکیسویں صدی میں انتخابات میں پرانے اور نئے دونوں طریقوں سے دھاندلی کی جائے گی کیونکہ آمروں نے ایک آسان اور افسوس ناک حقیقت یہ سیکھی ہے کہ انتخابات نہ کرانے سےآسان یہ ہے کہ ان میں دھاندلی کرکے اقتدار میں رہا جائے ۔ 

جب تک ہم ان حربوں کا پتہ چلاکر ان کا توڑ نہ کرلیں ، انتخابات کا معیار گرتا جائے گا" آخر میں انہوں نےلکھا ہے " ہمیں معلوم ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کیسے کی جاتی ہے اور یہ بھی پتہ ہے کہ اسے کیسے مشکل بنایا جاسکتا ہے۔ 

اگر ہمیں جمہوریت کی کوئی پروا ہے تو ہمیں کچھ کرنا ہوگا ۔ اب وقت ضائع کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے" دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے آزاد، غیر آزاد اور خاصا آزاد کے تین درجوں میں بھارت کو آزاداور پاکستان کو خاصا آزادمیں رکھا ہے۔یہ اتنا برا نہیں کیوں کہ کئی ملک غیر آزاد کی کیٹیگری میں بھی ہیں ۔ 

میری پختہ رائے ہے کہ پاکستان میں انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی نہیں ہوتی لیکن ان کیلئے بڑی چالاکی سے انجنئیرنگ ضرور کی جاتی ہے۔1956 سے 2018 تک اس کی مثالیں مل سکتی ہیں۔یہ سسٹم کی نہیں بلکہ ان کی ناکامی ہے جو ہمیشہ مثبت نتائج چاہتے ہیں اور اسے ہی آزادانہ اور منصفانہ سمجھتے ہیں۔ 

انتخابی اصلاحات کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس کی جارہی ہے اور الیکٹرونک ووٹ مشین (EVM) کو اس سلسلے میں پیش رفت سمجھا جاسکتا ہے۔لیکن جس طرح اس ملک میں انتخابات مینیج کئے جاتے ہیں ، کیا یہ ٹیکنالوجی اس کا توڑ ہوسکتی ہے؟

 یہ زیادہ سے زیادہ پولنگ اور گنتی کے عمل میں گڑ بڑ کا تدارک کرسکتی ہے بشرطیکہ اسے پوری ایمانداری اور مہارت سے استعمال کیا جائے۔ لیکن اگر انتخابات ، پولنگ سے پہلے اور بعد مینیج اور کنٹرول کئے جائیں تو ؟ 

امید ہے حکومت اور اپوزیشن کسی اتفاق رائے تک پہنچ جائیں گے۔ مثال کے طور پر ہم انتخابات سے پہلے کسی اہم عہدیدار کی ممکنہ ریٹائر منٹ یا توسیع کو اتنا اہم کیوں سمجھتے ہیں ، حالانکہ اس کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بڑی سیاسی پارٹیاں انتخابات سے پہلے اور بعد اپنی صفوں میں توڑ پھوڑ کا الزام کیوں لگاتی ہیں۔ 

ان میں سے اکثر انتخابات سے پہلے ہمیں پتہ ہوتا تھا کہ کون جیتے گا اور کون حکومت بنائے گا۔ جمہوریت اس طرح نہیں چلتی کہ "لوگوں کی مرضی" اکثربیلٹ بکس کھلنے سے پہلے ہی چرا لی جاتی ہے۔ 

دوسری بات یہ کہ اگر انتخابات لوگوں کے خیال میں منصفانہ ہوں ، جیسا کہ مشرقی پاکستان میں 1956 میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات یا پھر 1970 کے عام انتخابات ، اس کے باوجود مینڈیٹ تسلیم نہ کیا جائے اور اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل نہ کیا جائے۔ 

تین فوجی ڈکٹیٹروں فیلڈ مارشل ایوب خاں ، جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے غیر قانونی اور غیر آئینی اقتدار کو جواز دینے اور جمہوریت کی بحالی کیلئے بنیادی جمہوریت اور غیر جماعتی انتخابات جیسے اپنے اپنے سسٹم متعارف کرائے۔

2002 میں مشرف نے نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو نکالنے کے بعد عام انتخابات کرائے اور پھر دونوں مقبول جماعتوں میں پھوٹ ڈالی جس کے نتیجے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ اور مسلم لیگ (ق ) نے جنم لیا۔

پاکستان میں نظام اسی طرح چلتا ہے۔ 

ہماری سیاسی تاریخ کا افسوسناک حصہ مطلق العنان سویلین حکومتیں اور سیاسی جماعتوں کا اپنے اندر جمہوریت نہ لانا بھی ہے۔

تازہ ترین