اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو سوچنے، سمجھنے، اور محسوس کرنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے، اگر وہ ان صلاحیتوں کا بروقت اور صحیح معنوں میں استعمال کرے تو وہ اپنے فیصلوں میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ زندگی کا ہر منظر’’ سوچ‘‘ سے ہی جنم لیتا ہے۔ سوچ کی مختلف اقسام ہیں جیسے مثبت سوچ، منفی سوچ۔ مثبت سوچ کی متضاد منفی سوچ ہے جو شکست، ناکامی، ناامیدی، غصہ، بدمزاجی، مایوسی، دوسروں کو نیچا دکھانے کی خواہش وغیرہ کا نتیجہ ہوتی ہے۔
منفی سوچ رکھنے والا نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص انہیں دھوکہ دےرہا ہے ۔ نہ خود کچھ کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو کچھ کرتا دیکھ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں منفی سوچ اور پاؤں میں موچ انسان کو کبھی آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ سوچ سے الفاظ بنتے ہیں، الفاظ سے عمل، عمل سے کردار اور کردار سے آپ کی پہچان ہوتی ہے۔
ہر انسان کی زندگی پراُس کی سوچ اور خیالات اثر انداز ہوتے ہیں، شیکسپر نے کہا تھاکہ ’’ ہم وہ نہیں ہوتے جوکرتے ہیں بلکہ ہم وہ ہوتے ہیں جو سوچتے ہیں‘‘… یعنی اگر آپ یہ سوچیں کہ آپ کوئی کام کر سکتے ہیں تو آپ کرسکیں گے اور اگر آپ یہ سوچیں کہ نہیں کرسکتے تو کچھ بھی کرلیں وہ کام نہیں کرسکیں گے۔ مثبت اور منفی خیالات انسان کےذہن میں ہر وقت آتے رہتے ہیں، اسی سوچ وفکر سے انسانی جذبات کی آبیاری ہوتی ہے۔
سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا ’’ بتائیں میرا مستقبل کیسا ہوگا؟‘‘ سقراط نے ایک کاغذ منگوایا اور کہا اس پر اپنے خیالات لکھو ۔اس نے جو جو سوچا تھا سب لکھ دیا۔ سقراط نے بتادیا کہ جیسے تمہارے خیالات ہیں، اس کے مطابق تمہارا مستقبل ایسا ہوگا۔ معروف مصنف نپولین کے مطابق ’’ دنیا میں اتنا خزانہ زمین میں سے نہیں نکالا گیا، جتنا انسان نے اپنے ذہن، خیالات، تصورات اور سوچ کے سمندر سے حاصل کیا‘‘۔ اچھی سوچ ایک ایسا خزانہ ہے جس سے مٹی کوبھی سونا بنایا جاسکتا ہے۔
دنیا کے کامیاب مفکرین اور فلاسفروں نے ہمیشہ اپنے ماحول سے متاثر ہوکر ہی ایسے نظریات پیش کیے۔ نیوٹن کے سرپر اچانک درخت سے سیب گرا تو اس نے گرنے کی وجہ پر غور کیا، آخرکار کشش ثقل کا قانون پیش کردیا۔ مشہور شاعر ’’ ورڈزورتھ‘‘ فطرت کے دلفریب نظاروں کا دلدادہ نہ ہوتا تو ’’ڈیفوڈلز‘‘ جیسی شاندار نظم نہ لکھتا۔
حقیقت یہ ہے کہ کتابیں پڑھنا، بڑے لوگوں کی باتیں سننا اور فطرت کے قریب رہنا،سوچ کے بند دروازے کھول دیتا ہے۔ آپ کا اٹھنا بیٹھنا جس قسم کے لوگوں میں ہوگا، ان کا رنگ آپ کی سوچ پر ضرور چڑھے گا، خوشبو کی دکان پرجائیں گے، تو کچھ نہ بھی خریدیں، پھر بھی کپڑوں میں خوشبو رچ بس جائے گی۔
نوجوان اپنی شخصیت کو ایسے رنگ میں ڈھالیں جیسے پرفیوم کی بھینی بھینی خوشبو لوگوں کو معطر وجود کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ اسی طرح آپ کا مثبت رویہ بھی انہیں آپ کے ہونے کا احساس دلاتا رہے گا ۔ اپنی سوچوں کی ناؤ کو جذبات کی لہروں کے رحم وکرم پر مت چھوڑیں بلکہ اپنے محسوسات اور جذبات کواپنے اچھے خیالات کے تابع کریں۔ ہمیشہ حقیقت پسندانہ سوچ رکھیں ۔ اپنی غلطیوں کااعتراف کریں، ماضی میں کیا ہوا؟ اس کے بارے میں سوچنا چھوڑدیں یا مستقبل میں کیا ہونے والا ہے، اس کے بارے میں فکرمندنہ ہوں بلکہ اپنے حال پر توجہ دیں ۔
نوجوانوں کی اصلاح کی جس قدر آج ضرورت ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں تھی،کیوں کہ نوجوان نسل غلط کاموں پر نادم ہونے کی بجائے فخر کرتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نسل نو کی بڑی تعداد خودسر، بدتمیز اور بدلحاظ ہوتی جارہی ہے۔اُن کے دل ودماغ پر سوشل میڈیا جنون کی حد تک حاوی ہوچکا ہے۔ دن بھر سوشل میڈیا کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔ اسی لیے فیس بک پر ان کے دوست بنتے جارہے ہیں جب کہ حقیقی زندگی میں ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
اب تو ان میں زندگی کی ان اخلاقی قدروں کی پاسداری کا رحجان قدرے کمزور پڑتا جارہا ہے جن کی بنا پر ایک پرامن اور خوشحال معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ ٹک ٹاک، کیمرے اور خودنمائی کی لت نے نوجوانوں تماشہ بناکر رکھ دیا ہے۔ بے حیائی کی آگ کا الاو جتنا تیز ہوتا جارہا ہے۔ انارکی اسی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے ، اگر اسے روکا نہ گیا تو یہ آگ سب کے دامن جلا دے گی۔
نوجوانو! اگر آپ اب تک اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے متعلق نہیں سوچا تو اب سوچئیے۔ سوچ پرکوئی پابندی نہیں خواب دیکھنے میں بھی کوئی روک ٹوک نہیں لیکن بہتر ہوگا کے زیادہ سے زیادہ عزت واحترام اور محبت وچاہت سے بھرپور زندگی کے بارے میں سوچیں اور اگر درست انداز میں سوچنے کے فن سے آشنا ہوجائیں گے تو یقیناً زندگی گزارنے کے گُر بھی سمجھ جائیں گے۔
متوجہ ہوں!
قارئین کرام آپ نے صفحہ ’’نوجوان‘‘ پڑھا آپ کو کیسا لگا؟ ہمیں اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر آپ بھی نوجوانوں سے متعلق موضوعات پر لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریریں ہمیں بھیجیں۔ ہم نوک پلک درست کرکے شائع کریں گے۔
ہمارا پتا ہے:
صفحہ ’’نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،
اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔