• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان امریکی ناشکرے پن اور دنیا کے دہرے معیار کا شکار، عالمی امن کیلئے طالبان سے مذاکرات ضروری، عمران خان


اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں، جنگ نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان امریکی ناشکرے پن اور دنیا کے دہرے معیار کا شکار ہوا، عالمی امن کیلئے طالبان سے مذاکرات ضروری ہے، دنیا افغان عوام کی خاطر لازمی طور پر موجودہ حکومت کو مستحکم کرے۔

بھارت بامقصد مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنائے، ترقی پذیر ممالک کی بدعنوان حاکم اشرافیہ کی لوٹ مار کیوجہ سے امیر اور غریب ملکوں کے درمیان فرق خطرناک رفتار سے بڑھ رہا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق دنیا کا رویہ مساویانہ نہیں۔

شہریت کے امتیازی قوانین کا مقصد مسلمانوں کو بھارت سے نکالنا ہے، ہندوتوا نظریات نے بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں میں خوف کی لہر پیدا کر دی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 

وزیراعظم عمران خان کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کو انکے بھارتی ہم منصب نریندر مودی نے ہدف تنقید بنا یا اور انکی تقریر کے مختلف حصوں پر نہ صرف اعتراضات کئے بلکہ اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا ۔ 

وزیراعظم عمران خان نے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ دنیا کو کووڈ 19 معاشی بحران اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرے کی وجہ سے درپیش خطرات جیسے تین طرفہ چیلنج کا سامنا ہے افغانستان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا امریکا اور یورپ میں بعض سیاستدان پاکستان پر الزام تراشی کرتے رہے ہیں۔ 

اس پلیٹ فارم سے میں چاہتا ہوں کہ سب جان لیں کہ جس ملک نے افغانستان کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے وہ پاکستان ہے جب ہم 9/11 کے بعد دہشت گردی کیخلاف امریکا کی جنگ میں شامل ہوئے تھے، 80 ہزار پاکستانی مارے گئے اور ہماری معیشت کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان میں 35 لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور یہ کیوں ہوا ؟ اسی کی دہائی میں افغانستان پر غیر ملکی قبضے کبخلاف جنگ میں پاکستان صف اول میں تھا۔ 

پاکستان اور امریکا نے افغانستان کی آزادی کیلئے مجاہدین کو تربیت دی، دنیا بھر سے مجاہدین گروپوں، اٖفغان مجاہدین اور القا عدہ کو ہیرو سمجھا جاتا تھا، صدر رونلڈ ریگن نے 1983 میں ان کو وائٹ ہاؤس میں دعوت دی، ایک نیوز رپورٹ کے مطابق انہوں نے ان کا موازنہ امریکا کے بانیوں کے ساتھ کیا۔

انہوں نے کہا کہ 1989 میں سوویت یونین افغانستان سے چلا گیا اور اسی طرح امریکی بھی افغانستان کو چھوڑ کر گئے، پاکستان کو 50 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا گیا، ہمارے ہاں مذہبی فرقہ پرستی پھیلانے والے عسکری گروپس آگئے جن کا پہلے کوئی وجود نہ تھا۔

بدترین صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب ایک سال بعد امریکا نے پاکستان پر پابندیاں عائد کر دیں، اس کے بعد ایک بار پھر امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی، کیونکہ اب امریکا کی زیر قیادت اتحاد افغانستان پر حملہ کرنے جا رہا تھا اور پاکستان کی طرف سے لاجسٹیکل سپورٹ کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا، اسکے بعد وہی مجاہدین جن کو ہم نے غیر ملکی قبضے کے خلاف جنگ کیلئے تیار کیا تھا وہ ہمارے مخالف ہوگئے۔

ہمیں شریک کار گردانا گیا انہوں نے ہمارے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ پھر افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد کے قبائلی علاقے میں جو پاکستان کا جزوی طور پر خود مختار علاقہ ہے اور جہاں ہماری آزادی کے وقت سے کوئی فوج تعینات نہیں کی گئی تھی۔ 

ان کی افغان طالبان کے ساتھ بہت زیادہ ہمدردی تھی اس لئے نہیں کہ ان کا مذہبی نظریہ ایک ہے بلکہ پشتون قومیت کی وجہ سے جو کہ بہت مضبوط تعلق ہے۔ پھر 30 لاکھ افغان پناہ گزین اب بھی پاکستان میں تھے ، ان سب کی افغان طالبان کے ساتھ ہمدردی تھی، وہ بھی پاکستان کیخلاف ہو گئے۔ 

اسلامو فوبیا کے حوالے سے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسلامو فوبیا ایک اور ایسا خوفناک رجحان ہے جسکا ہم سب کو ملکر مقابلہ کرنا ہے، میں سیکرٹری جنرل سےاپیل کرتا ہوں کہ وہ اسلامو فوبیا کا تدارک کرنے کیلئے بین الاقوامی مکالمہ شروع کروائیں۔

تازہ ترین