کتاب ہماری تہذیب و ثقافت میں کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کرسکی،یہ ہماری شناخت کا کوئی واضح حوالہ نہیں رہی ورنہ باغوں کے شہر لاہور کو کتابوں کا شہر بھی تو بنایا جاسکتا تھا۔ لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ گزشتہ کئی برسوں سے سرکاری خزانے کا ایک بڑا حصہ لاہور کو جدید تر بنانے اور’’ اس گنجان آباد شہرکی زُلفِ گرہ گیر کو سُلجھانے‘‘میں صرف کیا جارہا ہے۔یہ بات بجا،لیکن ایک طرح سے ہمیںلاہور بھی پسماندہ لگتا ہے۔ یہاںجدید عمارتیں، تفریح گاہیں اورسڑکیں توتعمیر کی گئیں، لیکن کتب خانوں کی صورت میںشجرِ علم کی آبیاری نہیں کی گئی۔اس شہر میں آخری پبلک لائبریری1986میں ماڈل ٹاؤن میںتعمیر کی گئی۔ گزشتہ 35برسوں سے جم خانہ میںبیٹھ کر قوم کا غم پینے والوں نے کوئی نیا کتب خانہ قائم نہیں کیا۔
لاہورکیا، صوبہ بھر میں سرکاری لائبریریزکا کوئی پرسانِ حال نہیں۔اس وقت پنجاب میںسرکاری لائبریریز تین مختلف محکموں کے زیرانتظام ہیں۔ محکمہ لوکل گورنمنٹ کے پاس ڈیڑھ سو سے زائد میونسپل لائبریریز ہیں۔ گزرے زمانوں کی ان لائبریریوں میں پروفیشنل عملہ اور جدید سہولتیں موجودنہیں۔ زیادہ تر صرف نام کی لائبریریز ہیںجہاں کتاب کا اجرا، کیٹالاگ،ممبرشپ،سالانہ خریداری وغیرہ کچھ نہیںہوتا۔بس مقامی لوگ آکر،اخبار پڑھ کر چلے جاتے ہیں۔ کئی تحصیلوں میں میونسپل لائبریری نائب قاصد یا بلدیہ کا کوئی چھوٹا موٹا ملازم چلا رہا ہے۔ دوسری قسم ای لائبریریز کی ہے۔ 2018میں آئی ٹی بورڈ کے اشتراک سے سپورٹس ڈپارٹمنٹ پنجاب نے بیس اضلاع میں ای لائبریریز قائم کیں۔فری انٹرنیٹ سمیت جدیدسہولیات کے حامل اس پروجیکٹ کو موجودہ حکومت نے 2020میں ختم کردیا۔ لائبریریزکا سارا پروفیشنل عملہ فارغ کرکے اب ان عمارتوں میں محکمہ اسپورٹس نے اپنے کلرک بٹھا دیے ہیں۔ اصولاََان دو قسم کی لائبریریز کو چلانا محکمہ لائبریریز کی ذمہ داری ہونی چاہیے لیکن یہ وہ اولاد ہے جو پیدا ہوتے ہی بیگانے ہاتھوںمیں چلی گئی۔ کبھی کبھی حکومت کے دل میں خیال آتا ہے کہ’’جس کا کام،اسی کو ساجھے‘‘کے مصداق انہیں محکمہ لائبریریز کے سپرد کردیا جائے لیکن ہماری حکومتوں کوپھر اورخیال ستانے لگتے ہیں، کتابوں کی یہاںکون سنے؟
اب تیسری قسم کی بات ہوجائے۔یہ محکمہ آرکائیوز اینڈ لائبریریز کے ماتحت کام کرنے والی دس پبلک لائبریریز ہیںجن میں سے تین لاہور میں واقع ہیں۔ہماری کوئی کم یازیادہ ایماندار حکومت چاہتی توہر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر میں آفیسرزکلب کی طرح ایک شاندار لائبریری تعمیر کرواسکتی تھی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ افسر لائبریریوں میں جا کر نہیں بیٹھتے ورنہ اہل ِ نظر ان ویرانوں میں بھی کوئی تازہ بستیاں آباد کرلیتے۔کوئی نئی امید کیا باندھی جائے کہ جو دلِ ریزہ ریزہ بچا ہے، اسے بھی ہم اپنی بے اعتنائی سے گنوا رہے ہیں۔
باغِ جناح میںواقع قائد اعظم لائبریری کومحکمے نے ریسرچ اینڈ ریفرنس لائبریری کا درجہ دے رکھاہے۔ ریسرچ کو جواز بنا کریہاں ممبران کو کتابیں ایشو نہیں ہوتیں لیکن چوری ضرورہوجاتی ہیں۔ یہاں ریسرچ پر کسی ورکشاپ یا ٹریننگ کا انعقاد تو نہیں ہوتالیکن اگر آپ نے لائبریری کے اندر یا باہر شادی بیاہ اور فلموں، گانوں کا فوٹو ویڈیو شوٹ کرنا ہے تو ہزاروں سے لاکھوں روپے تک کے پیکیجز پیش کر دیے جائیں گے۔یہ واحد کام ہے جو انتظامیہ پوری لگن سے کرتی ہے، ورنہ یہاں کئی کئی سال کتابیں نہیں خریدی گئیں اور مختص کیے گئے فنڈزواپس خزانے میں چلے گئے۔ نجانے کس علم دشمن نے یہ اصول بنایا تھا کہ ماسٹر ڈگری سے کم تعلیم کا حامل شہری اس لائبریری کا ممبر نہیں بن سکتا۔اس لائبریری کی باگ ڈور ایک بورڈ آف گورنرز کے ہاتھ میں ہے جس کے سربراہ چیف سیکرٹری پنجاب ہیں۔ ان کی دیگر اہم مصروفیات کے سبب کئی کئی سال لائبریری بورڈ کی میٹنگ ہی نہیں ہوتی۔
1884سے قائم پنجاب پبلک لائبریری پاکستان کی سب سے پرانی اور بڑی لائبریری ہے۔اس میں موجود نوادرات اور مسودات کی صحیح حفاظت نہ ہوسکی اور کئی قیمتی چیزیں ضائع ہوگئیں۔یہاں ممبران کو بک شیلف تک رسائی نہیں یعنی آپ کتابیں دیکھ نہیں سکتے۔ نام بتانے پر عملہ خود آپ کو کتاب لا کردے گا۔ کتابیں کس حالت میں ہیں؟کس موضوع پر کون کون سی کتابیں ہیں؟، نئی کتابیں کون سی آئیں؟کچھ معلوم نہیں کہ کتاب اورقاری کے درمیان فاصلہ ہی اتنا بڑھادیا گیاہے۔پنجاب کی باقی آٹھ لائبریریاں ڈائریکٹوریٹ آف لائبریریز چلاتا ہے۔کیسے چلاتا ہے؟ یہ ایک افسر نے آج تک حکام بالا کو سمجھنے ہی نہیں دیا۔آج تک ان لائبریریز کے ملازمین کے سروس رُولز نہ بن سکے، رکاوٹ ان کا اپنا محکمہ ہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں یہ لائبریریز آٹومیشن (خودکارنظامِ سہولت )سے محروم ہیں۔
1985میں صوبے میں لائبریریز کے فروغ کیلئے ایک ادارہ پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن قائم کیاگیا جس کا کام لائبر یریز کو مالی امداد فراہم کرنا تھا۔ گزشتہ چھ برس میں اس ادارے نے کسی لائبریری کو ایک آنے کی گرانٹ فراہم نہیں کی۔ کوئی کام کیے بِنا، فاؤنڈیشن کے فنڈ سے کس طرح کروڑوں روپے خرچ کیے گئے؟ کتنی پر تعیش گاڑیاں خریدی گئیں؟ پروجیکٹ شروع کیے بغیر کس طرح لاکھوں روپے کا پروجیکٹ الاؤنس فردِ واحد کو دیا گیا؟اس پر پورا دفتر لکھا جا سکتا ہے۔ ہمارے بیوروکریٹس(جو کبھی ہمارے نہ ہوئے)ایل ڈی اے اور پلاننگ بورڈ جیسے اداروں میں تعیناتی کو باعث ِ افتخار اور خوش نصیبی سمجھتے ہیں جبکہ لائبریریز اور علم و دانش کے اداروں میں پوسٹنگ کو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا گردانتے ہیں۔ خوب و ناخوب کے اس چکر میں وہ یہاں دل جمعی سے کام نہیں کرتے اور کسی مبارک گھڑی کے انتظار میں رہتے ہیں۔ یہ کتاب ہی ہے جو کسی قوم کو آگے لے کر جاتی ہے لیکن ہم نے اس کتاب کو ہی پیچھے دھکیل دیا۔