• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سنجیدہ تحقیق اور تدبیر کے بغیر کھیلوں پر سیاست ہورہی ہے

مقام فکر ہے کہ اعلی سطح پر بجائے سنجیدہ تحقیق اور تدبیر کے اسپورٹس پر سیاست ہورہی ہے، شکر ہے کہ اولمپکس میں ہمارے کھلاڑیوں کی شرکت اور کارکردگی پر میڈیا کے تبصروں نے وزیراعظم عمران خان کو کھیلوں پر بھی تھوڑی توجہ دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہر چند یہ کہ تبصرے اکثر کم علمی کے باعث ہو رہے ہیں، کھیل شوق سے تو سب بچے کھیلتے ہیں لیکن انکی ترویج کے لئے اسکول سب سے زیادہ موثر ادارہ ہے۔ 

لہٰذا سب سے مقدم اقدام کھیل کو شعبہ تعلیم کے تحت لانا ہے۔ محکمہ تعلیم میں بیشک اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ قائم کریں تاکہ ضروری سہولیات فراہم کرنے کا باضابطہ اہتمام ہو سکے۔ اسکول سے لیکر یونیورسٹیوں تک بین المدارس مقابلوں اور بین الاقوامی و عالمی مقابلوںکے لئے یونیورسل اولمپکس علیحدہ ایک سلسلہ ہے جسکو با مقصد، با معنی، متواتر اور مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔ دوسرا باضابطہ کھیلوں کی ماہرانہ مسابقتی منظم سلسلہ اولمپک چارٹر کے تحت ہے جو کھلاڑیوں کی اپنے کلب، مقامی،علاقائی،صوبائی اور قومی تنظیمیں(ایسوسی ایشنز اور فیڈریشنز) قائم کر کے مرتب ہوتا ہے۔

اولمپک کھیلوں کی قومی فیڈریشنیں مل کر قومی اولمپک ایسوسی قائم کرتی ہیں ،جو انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے الحاق اسکے چارٹر کے مطابق عمل کرنے سے مشروط ہوتا ہے۔ اولمپک کھیلوں کی بین الاقوامی فیڈریشنز کا آئی او سی سی الحاق بھی اسکے چارٹر کی پابندی سے مشروط ہوتا ہے اور ان ضابطوں کے تحت ہی ہمارے کھلاڑی اور ٹیمیں بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کر تی ہیں۔ وفاق اور صوبوں کے مشترک معاملات کے لئے وفاق میں وزارت بین الصوبائی رابطہ قائم ہے جس کے تحت پاکستان اسپورٹس بورڈ آتا ہے جس کی ذمے داری ہے کہ نو سال سے اوپر پاکستان میں نمایاں ہونے والے کھلاڑیوں کی اعلی تربیت کا باضابطہ اہتمام کرے۔ 

اس کے لیے اعلی تربیت گاہیں اور تربیتی ادارے قائم کئے جائیں۔ جن میں اسپورٹس کی اعلی تعلیم کا بھی بندوبست ہو تاکہ ماہر معلم اور ضرورت کے مطابق کھیلوں کے ٹرینر تیار کئے جائیں، تربیت گا ہیں( اکیڈمیز) اسلام آباد اور صوبائی مراکز کے علاوہ ملک کے دوسرے مناسب مقامات پر قائم کی جائیں، تمام نمایاں کھلاڑیوں کو قومی اور بین الاقوامی مقابلوں کے لیے تیار کرنے کا مستقل بند و بست ہو۔ اگر مختلف حکومتوں، محکموں، ادارے اور فیڈریشنز کے مابین اشتراک عمل ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس شعبے میں بھی اپنے جوہر نمایاں کر سکیں، ترقی کے لئے سب سے اہم ضرورت باہمی اعتماد ہے۔

اسکی کمی یا فقدان ہر کام کو 'کنٹرول اور 'ریگولیٹ کر نے کے چکر میں ڈال دیتا ہے اور مقصد معدوم ہو جاتا ہے۔ ہم خود کو قابل اعتماد بنانے کی بہترین کوشش کرتے ہیں جب ہم پر اعتماد کیا جا رہا ہو۔ اس مثبت ماحول میں مایوس کرنے والے ایک دو ہوتے ہیں اور انکے عمل سے نقصان پابندیاں عائد کرنے کے عمل کے مقابلے میں نا ہونے کی برابر ہوتا ہے۔ لہٰذا سوچ کو مثبت اور منصوبوں کو اعتماد کی بنیاد پر مرتب کرنے کی ضرورت ہے،( راقم الحروف پاکستان ٹیبل ٹینس فیڈریشن کے سابق صدر ہیں)

تازہ ترین
تازہ ترین