مسلم لیگ ن کی طرف سے تنظیمی معاملات بہتر بنانے کے لئے مختلف ڈویژنوں کے عہدے داروں کی میٹنگز کا سلسلہ جاری ہے ،جس سے نوازشریف بھی ویڈیو لنک خطاب کرتے ہیں اور مریم نواز بطورخاص شریک ہوتی ہیں ، اس سلسلہ کی ایک میٹنگ ملتان ڈویژن کی بھی گزشتہ دنوں لاہور میں ہوئی ، جس میں ملتان سے پارٹی عہدے داراور سابق وموجودہ اراکین اسمبلی ،ٹکٹ ہولڈرز بڑی تعداد میں شریک ہوئے ،اس اجلاس میں ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف ملتان ڈویژن کے عہدے داروں پر خاصے برہم ہوئے۔
وہ ملتان ڈویژن میں مسلم لیگ ن کی گرتی ہوئی مقبولیت پر نالاں تھے اور اس کا ذمہ دار انہوں نے پارٹی کے مقامی عہدے داروں کو قراردیا ،انہوں نے کہا کہ یہ وہی ڈویژن ہے ،جو مسلم لیگ ن کا گڑھ کہلاتا تھا اور اس کی اکثر نشستیں مسلم لیگ ن کے امیدوار جیتتے تھے ،مگر2018ء کے انتخابات میں دیگر عوامل کے علاوہ جس بات نے مسلم لیگ ن کی شکست میں اہم کردار ادا کیا ،وہ پارٹی کے عہدے داروں کی ناقص کارکردگی تھی اور ان کی عدم دلچسپی ،غلط حکمت عملی کے باعث پارٹی اپنی جیتی ہوئی نشستوں پر بھی شکست سے دوچار ہوئی۔
نوازشریف کا کہنا تھا کہ ملتان ڈویژن مسلم لیگ ن کے اندر گروپ بندی کے بارے میں بھی انہیں پورا علم ہے ،یہ گروپ بندی پارٹی کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے اور اس کی وجہ سے مسلم لیگ ن خاصا نقصان اٹھا چکی ہے ،اس کے بعد انہوں نے ملتان کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کی شکست کو بھی سٹی اور دیگر پارٹی عہدے داروں اور ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے بنائے گئے پارلیمانی بورڈکی نااہلی اور غفلت کا نتیجہ قراردیا اور انہوں نے کہا کہ یہ بات میرے علم میں ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلہ پر خاصی بدمزگی اور عدم اتفاق کا مظاہرہ کیا گیا۔
انہوں نے اس بات پر بھی شدید غصے کا اظہار کیا کہ امیدوار ہونے کے باوجود کئی حلقوں کو اوپن چھوڑدیا گیا اور وہاں پارٹی کارکنوں کو ٹکٹ نہیں دیئے گئے، انہوں نے پارلیمانی بورڈ کے ارکان عبدالرحمان کانجو ، سابق رکن قومی اسمبلی طارق رشید و دیگر کے نام لے کر انہیں اس کا ذمہ دار قراردیا ،ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک امیدوار کنٹونمنٹ بورڈ ملتان سے الیکشن جیت سکتا تھا ،تو باقی حلقوں میں امیدوار کھڑے کئے جاتے ،تو ان کے جیتنے میں کیا امرمانع ہوتا۔
اس قسم کی صورتحال مسلم لیگ ن کے لئے زہرقاتل ہے ،اس وقت مسلم لیگ ن میں کے اندروہ تنظیمی نظم وضبط نظر نہیں آرہا ،جو ایک بڑی الیکشن مہم کے لئے ضروری ہوتا ہے ،انہوں نے سوال کیا کہ اگر اگلے سال انتخابات کا اعلان ہوجاتا ہے ، تو کیا مسلم لیگ ن کی تنظیمی حالت اس قابل ہے کہ وہ انتخابات میں موثر کردار ادا کرسکے ، یہ سرزنش کرنے کے بعد انہوں نے پارٹی عہدے داروں کو تلقین کی وہ اپنے اختلافات کو ختم کریں۔
پارٹی میں گروپ بندی کا خاتمہ کیا جائے اور یونین کی سطح پر پارٹی کی تنظیم سازی کرکے ہریونین کونسل میں 200 تک کارکن بنائے جائیں ،تاکہ وہ انتخابات کی صورت میں ایک طرف گھر گھر پارٹی کا پیغام پہنچا سکیں اور دوسرا پولنگ کے موقع پر وہ کسی بھی دھاندلی کو روکنے کے اپنا مؤثر کردار ادا کریں ۔نوازشریف نے ملتان ڈویژن کے تنظیمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ،اس سے صاف لگتا ہے کہ وہ پارٹی کے تنظیمی امور سے مکمل طورپر آگاہ ہیں اور انہیں اس بات کا علم ہے کہ کس شہراور کس ڈویژن میں کون کیا کررہا ہے ،ان کے خطاب سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ آئندہ کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے بالکل واضح ہیں اور انہیں یہ یقین ہے کہ وہ ان حالات میں مسلم لیگ ن کو ایک بڑے سیاسی کردار کے لئے تیار کرسکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے تنظیمی اجلاسوں سے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف غائب نظر آتے ہیں اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز پارٹی اجلاسوں میں نمائندگی کرتی نظرآتی ہیں ، تو کیا یہ طے ہوچکا ہے کہ مسلم لیگ ن کی تنظیم سازی کا عمل مریم نواز کے ذمہ ہے اور آنے والے دنوں میں پارٹی عہدے داروں کا چناؤ یا ان کے عہدوں میں تغیر وتبدل کی منظوری بھی مریم نواز دیں گی ،ایک لحاظ سے یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن کی تنظیمی سربراہ اب مریم نواز ہیں اور شہبازشریف کو صرف سیاسی کردار تک محدود کردیا گیا ہے،اس صورتحال میں تمام پارٹی عہدے داروں کو یہ پیغام بھی مل رہا ہے کہ نوازشریف کی حقیقی نمایندہ مریم نواز ہیں اور انہیں کے ذریعے مستقبل میں مسلم لیگ ن کو چلایا جائے گا۔
اگر یہی صورتحال رہی ،تو انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلہ پربھی نوازشریف ،مریم نواز پر انحصار کریں گے ،کیونکہ وہ پنجاب کی حد تک مسلم لیگ ن کے تنظیمی مراحل کو بہت قریب سے دیکھ رہی ہیں ،یہاں ملتان کے حلقوں میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ نوازشریف نے جس طرح پارٹی کے موجودہ عہدے داروں کی سرزنش کی ہے ،اس کے پیش نظریہاں نئی تنظیم سازی بھی ہوسکتی ہے اور نئے پارٹی عہدے داروں کو بھی سامنے لایا جاسکتا ہے۔
ملتان اور مظفرگڑھ سے تعلق رکھنے والے دوصوبائی ارکان اسمبلی سلمان نعیم اور خرم لغاری نے پچھلے ہفتہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے لاہور میں ملاقات کی اور انہیں مکمل تعاون کا یقین دلایا ،یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ یہ دونوں ارکان جہانگیر ترین گروپ کے سرگرم ممبران شمار ہوتے ہیں اور انہوں نے ان دنوں میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا ،جب جہانگیرترین حکومت کے خلاف سرگرم تھے ،سلمان نعیم حال ہی میں سپریم کورٹ کے حکم سے رکن اسمبلی بحال ہوئے ہیںاور کہا کہ یہ جارہا تھا کہ وہ جہانگیرترین گروپ کی وجہ سے شاید اسمبلی میں آزادانہ کردار ادا کریں ،مگر انتہائی معتبر ذرائع کے مطابق انہوں نے جہانگیرترین کے مشورے پر ہی وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی ہے ۔