ثمینہ فرحت
5؍اکتوبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں اساتذہ کا عالم دن منایا جاتا ہے۔ یہ دن اساتذہ کی اہمیت اور ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے۔
دنیا کے سب سے عظیم معلم کائنات حضرت محمد ﷺ ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا۔’’بے شک مجھے استاد بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔آپ ؐکی ذات معلم کی شخصیت کی اعلیٰ مثال ہے۔
استاد ایک ایسا جوہری ہے جو ایک پتھر کو تراش کر بیش بہا ہیرے کی شکل دیتا ہے، ان ذہنوں کی تشکیل کرتا ہے جو ملک کی ترقی کے لئے ذہن سازی کرتے ہیں اور طلباء کو بامقصد، باعمل اور بااخلاق زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اساتذہ ہر طالب علم کی زندگی پر نمایاں اثر چھوڑتے ہیں وہ اپنے شاگردوں کو منزل تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔
معروف مفکر اورڈرامہ نگار، اشفاق احمد مرحوم نے استاد کی اہمیت پر ایک واقعہ کچھ اس طرح قلم بند کیا ہے کہ روم (اٹلی) میں میرا ٹریفک چالان ہو۔ا مصروفیت کے باعث فیس وقت پر ادا نہ کر سکا۔ کورٹ جانا پڑا۔ جج کے سامنے پیش ہوا تو اس نے وجہ پوچھی میں نے کہا، پروفیسر ہوں مصروف ایسا رہا کہ وقت ہی نہ ملا۔ اس سے پہلے کہ میں بات پوری کرتا ،جج نے کہا"ـ "A teacher is in the court سب لوگ کھڑے ہو گئے اور مجھ سے معافی مانگ کر چالان کینسل کر دیا۔ اس روز میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا۔
اساتذہ کی اہمیت کو یورپی ممالک میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، خاص طور پر جرمنی میں ،جہاں اساتذہ کا اعتراف انہیں سب سے زیادہ تنخواہ دے کر کیا جاتا ہے۔ جرمنی میں پچھلے دنوں ججز، ڈاکٹرز، اور انجینئر نے احتجاج کیا اور اساتذہ کے برابر تنخواہ کا مطالبہ کر دیا۔ یہ خبر جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل تک پہنچی تو انہوںنے بڑا ہی خوبصورت جواب دیا ’’میں آپ لوگوں کو ان کے برابر کیسے کر دوں جنہوں نے آپ کو اس مقام تک پہنچایا ہے‘‘۔
اساتذہ ہرطالبِ علم کی زندگی پر نمایاں اثرات چھوڑتے ہیں۔ وہ اپنے طالب علموں کو ترقی کرتے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ مستقبل کے معماروں کی حقیقی تشکیل کرتے ہیں۔ طالب علموں کو زندگی کی کسی بھی مشکل سے نکلنے کے قابل بناتے ہیں ۔ زندگی کے اندھیروں سے کامیابی کی روشنی میں لے جانے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے ذہن کو کامیابی کی طرف ڈھالتے ہیں۔ کسی شاعر نے کہا تھا:
؎یہ جو درسگاہوں میں استاد ہوتے ہیں
حقیقت میں یہی قوم کی بنیاد ہوتے ہیں
عظمت استاد کا ایک اور اہم واقعہ مشہور یونانی مفکر ارسطو اور اس کے شاگرد سکندر اعظم سے منسوب ہے۔ فاتح عالم سکندر ایک مرتبہ اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہا تھا کہ راستے میں ایک بہت بڑا برساتی نالہ آگیا۔ استاد اور شاگرد کے درمیان بحث ہونے لگی کہ خطرناک نالہ پہلے کون پار کرے گا؟ سکندر بضد تھا کہ پہلے وہ جائے گا آخر ارسطو نے اس کی بات مان لی پہلے سکندر نے نالہ پار کیا پھر ارسطو نے ۔ نالہ عبور کر کے سکندر نے پوچھا ’’کیا تم نے پہلے نالہ پار کر کے میری بے عزتی نہیں کی؟‘‘
سکندر نے جواب دیا ’’نہیں استاد مکرم! میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندر تیار ہو سکتے ہیں لیکن سکندر ایک بھی ارسطو تیار نہیں کر سکتا‘‘۔
استاد کا کام صرف یہ نہیں کہ وہ شاگرد کو پڑھائے، تجربہ کرنا سکھائے اور سمجھا کر کہے کہ، میرا فرض ادا ہو گیا۔ استاد کا اصل کام تو خواہش اور جستجو پیدا کرنا ہے۔ ایک جذبہ پیدا کرنا ہے معاشرے کو سمجھنے کا۔ چیلنجز قبول کرنے کا، کامیابی حاصل کرنے کا، علم کی پیاس بڑھانے کا، آگے بڑھنے کا، جاننے کا، سماجی مشکلات سے آگاہ کرنے کا، بچے کو حوصلہ مند، باکمال ، باصلاحیت اور باکردار بنانے کا۔
اساتذہ ہی طالب علموں میں انسانی رویوں کی ترتیب و تخلیق کا باعث ہوتے ہیں ۔ یہ رویےکسی تعلیمی نصاب پر انحصار نہیں کرتے، بلکہ خالصتاً ایک استاد کی شخصیت سے جھلکتے ہیں۔ استاد کو روحانی والدین کا رتبہ اسی لیے دیا گیا ہے کہ وہ اپنی پوری صلاحیتیںبچوں کو سنوارنے میں لگا دے، جس طرح اپنی اولاد کی فکر اور اس کے مستقبل کا خیال کرتا ہے، ویسے ہی طلبہ کو مقصدیت کی طرف راغب کرنا، ان کی زندگی کو سہل بنانا، طلباء میں جاننے کی جستجو پیدا کرنا، جس کی شعاعین طلباء کے ذہن و شخصیت سے نکلتی ہوئی محسوس ہوں۔ کوئی اور پیشہ ایسا ہر گز نہیں ہوتا جیسے ایک استاد کا ۔ استاد کی طاقت قلم اور دوستی کتاب سے ہوتی ہے اور یہ طاقت اس کو نسلوں کا امین بنا دیتی ہے۔
استاد کے پاس وہ معلومات اور علم ہوتا ہے جو نسلوں کی کامیابی کے لئے مشعل راہ ثابت ہوتا ہے۔ پھول اعلان نہیں کرتا کہ میں کھل گیا ہوں، اس کی خوشبو سارے باغ کو بتا دیتی ہے کہ آج کوئی پھول کھل گیا ہے۔ اسی طرح ایک مخلص استاد کی خوش بو طلباء کو ہر لمحہ پھوٹتی ہوئی محسوس ہو گی۔ اساتذہ معلومات کا سمندر بنیں،تاکہ طلباء اس سمندر سے پانی پیاس بجھا سکیں وہ سورج بنیں جہاں سے شاگرد روشنی مستعار لے کر اپنی ذات کی تکمیل کر سکیں۔