• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’تم خوفزدہ ہو کہ چین ہمیں پیچھے چھوڑ جائے گا۔ میں تم سے متفق ہوں لیکن تمہیں معلوم ہے کہ چین ہمیں کیوں پیچھے چھوڑ دے گا؟ میں نے 1979میں چین سے معمول کے سفارتی تعلقات قائم کئے تھے، تمہیں معلوم ہے کہ جب سے تادم چین نے کتنی جنگیں لڑیں، ایک بھی نہیں، جبکہ ہم مسلسل جنگوں میں مبتلا ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں امریکہ سب سے زیادہ جنگ پسند قوم ہے جو اپنی 240سال کی تاریخ میں صرف 16سال ہی امن سے رہی۔ امریکن رجحان یہ ہے کہ وہ اپنی اقدار اور مرضی دوسرے ممالک پر مسلط کرتا ہے، پھر ہم ان کمپنیوں کو کنٹرول کرتے ہیں جو بیرونی ممالک میں تیل کے ذخائر کی حامل ہیں۔ اس کے برعکس چین انفراسٹرکچر اور تیز تر بین البراعظمی مواصلاتی رابطوں 6Gٹیکنالوجی، روبوٹک انٹیلی جنس، یونیورسٹیوں، اسپتالوں، بندرگاہوں، بڑی بلڈنگز پر سرمایہ کاری کر رہا ہے ناکہ عسکری مقاصد پر۔ ہمارے ملک میں کتنے کلومیٹر ہائی اسپیڈ ریلوے ہے؟ لیکن ہم نے 300بلین ڈالر دوسرے ملکوں کو اپنا تابع مہمل رکھنے اور عسکری برتری قائم کرنے پر ضائع کئے، جبکہ چین نے جنگ پر ایک سینٹ بھی خرچ نہیں کیا۔ اگر ہم نے یہ بھاری بھر کم بجٹ جنگی مقاصد کی جگہ عوامی فلاح کے منصوبوں پر خرچ کیا ہوتا تو ہمارے ہاں آج بلٹ ٹرین سروس ہوتی، منہدم نہ ہونے والے پل اور فری ہیلتھ سروس کا نظام ہوتا اور کورونا کی وبا اتنی نہ پھیلتی، ہمارے پاس مطلوب معیار کے راستے ہوتے اور ہمارا اسکول سسٹم بھی کوریا اور شنگھائی جتنا بہتر ہوتا‘‘۔

قارئین کرام! دو سال قبل یہ ملین ڈالر پرویبیل گفتگو امریکی صدارتی تاریخ کے انتہائی شریف النفس اور بنیادی انسانی حقوق کے حقیقی جینین نوبل پرائز یافتہ 95سالہ (لیکن مکمل ہوشمند) سابق صدر جناب جمی کارٹر کی ہے، جو انہوں نے ایک چرچ میٹنگ میں کی۔ سوال و جواب کی ایک نشست میں ان سے صدر ٹرمپ کے سیاسی ابلاغ میں چین کے امریکہ سے آگے نکل جانے کے بیانیے کا ذکر اپنی تائید کے ساتھ کیا تو سابق امریکی ڈیموکریٹ دانشور صدر نے متذکرہ جواب دیا جو نیوز ویک میں شائع ہوا۔ صدر جمی کارٹر کا اپنے دورِ حکومت کے حوالے سے بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے ویت نام کی جنگ لپیٹنے والے مقبول ترین صدر نکسن (جو واٹر گیٹ اسیکنڈل میں رسوا ہو کر مواخذے کے نتیجے میں منصب سے علیحدہ کئے گئے) کی ویت نام کی جنگ کے خاتمہ کے بعد چین سے سفارتی تعلقات قائم کرکے عالمی امن کے عمل کو تیزی سے بڑھانے کی پالیسی کو قائم دائم رکھا اور 1979میں چین سے فل اسکیل سفارتی تعلقات قائم کیے، اس پالیسی کے آرکیٹکٹ نکسن دور میں ہنری کسنجر تھے، جس کے مطابق امریکہ، چین سفارتی تعلقات کو دو طرفہ وقار کے ساتھ ممکن بنانے کے لئے، پاک، چین مثالی دوستی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ نے اسلام آباد کی سفارتی معاونت حاصل کی۔

ناچیز، سمر- 1979میں پاکستان اور امریکی یونیورسٹیوں میں ’’فل برائٹ اسکالرز ایکسچینج پروگرام‘‘ کا بینی فشری بنا۔ ڈیلس مارننگ سے منسلک ہو کر امریکی جرنلزم بارے بہت کچھ سیکھا، اسے اپنی بقیہ دو عشروں کی تدریس میں بھی استعمال کیا، یوں یہ علمی فیض طلبہ تک گیا، میرے انٹرنیشنل اور امریکی جرنلزم کے وژن میں وسعت آئی، یہ پس منظر اور پیشہ ورانہ دیانت اس امرکی متقاضی ہے کہ آج جب امریکہ افغانستان میں اپنی جملہ ناکامیوں کے حوالے سے اپنی تاریخ کے ایک بڑے پیچیدہ اور حوصلہ شکن سیاسی علم و دانش اور امیج کے بحران سے دو چار ہے تو اپنی فل برائٹ ایلومینائے حیثیت کے حوالے اور وسیع تجربے کے ساتھ اپنے تئیں، امریکی پالیسی سازوں کو اتنا یاد دلادیا جائے کہ امریکی جائز اثر و رسوخ، جو ٹارگٹڈ ممالک کےلئے بھی قابلِ قبول اور فائدے مند ہو کہ بحال کرنے کی راہ سینیٹر فل برائٹ کی حکمت عملی برائے بین الاقوامی تعلقات سے نکلتی ہے، ناکہ بدستور ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے بخار میں مبتلا رہنے سے۔ چین کی بیرونی سرمایہ کاری کی وہ پالیسی جسے دو سال قبل آپ کے محترم ایلڈر آف دی نیشن جمی کارٹر نے اپنی چرچ ٹاک میں واضح کیا، ہی وہ اوپن سیکرٹ ہے جو امریکہ کے کھوئے اور کھوتے سپرپاور اور جمہوریت کے مرکز و محور جیسے امیج کو بحال کر سکتی ہے۔

امریکہ کے لئے تشویشناک اور پاکستان کے لئے افسوسناک اور کسی حد تک فکر مندی کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ امریکی کانگریس میں افغانستان سے انخلا کی شرمناک ہینڈلنگ اور انخلا کے پس پردہ 20سالہ ناکامیوں کے ڈھیر سے متعلق امریکی سینیٹ میں عسکری قیادت کی طویل ہیرنگ کے بعد منتخب ایوان میں مداوے کا پہلا فیصلہ ناکامی میں پاکستان کے کردار کا جائزہ لینے سے متعلق قانونی بل داخل کرنے کا ہوا، وہ ڈیزاسٹر پر ڈیزاسٹر کے بعد مطلوب نظرثانی اور پالیسی میں اصلاح سے کوسوں دور اس اسٹیٹس کو کیفیت کی سخت گیری کی نشاندہی کرتا ہے جس کو امریکی ایلڈر آف دی نیشن نے چین اور امریکہ میں بڑھتے فرق (امریکہ کے لئے منفی) کو واضح کیا۔

پاک، امریکہ تعلقات کی تلخ حقیقت تو امریکی مائنڈ سیٹ واضح ہونے کےبعد اب یہ ہی ہے کہ آج جب پاکستان مکمل یکسوئی سے ’’جنگوں کی نہیں امن کی پارٹنر شپ‘‘ کے وزیراعظم کے بیانئے کو پالیسی بنا چکا ہے، امریکہ اور پاکستان مزید دورہو رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حیرت انگیز پُرامن فتح، مکمل عام معافی کے اعلان اور انخلا میں پاکستان کے ممکنہ مخلصانہ اور ہر دم تعاون کے بعد جو امریکی سیاسی ابلاغ، امریکہ سے پاکستان کے حوالے سے ہو رہا ہے وہ جہاد افغانستان کے دوران امریکہ اور پاکستان کے تاریخ ساز اور ہمہ گیر نتائج کے حامل اشتراک والے رویے اور پالیسی سے متصادم ہے، نہ ہمیں امریکہ پر اعتبار ہے نہ امریکہ کو ہم پر۔ (جاری ہے)

تازہ ترین