• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کونسا قانون کہتا ہے وزیر کیخلاف انکوائری ہو تو مستعفی ہوجائے، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے وفاقی وزیر خسرو بختیار کی عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت اور بطور وزیر کام سے روکنے کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران درخواست گزار کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت پر مکمل تیاری کے ساتھ پیش ہوکر عدالت کے اس سوال کا جواب دیں کہ اگر عوامی عہدہ رکھنے والے کسی شخص کیخلاف کسی الزام میں انکوائری ہورہی ہو تو کس قانون کے تحت وہ مستعفی ہوجائے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بتائیں انکوائری پر ہمارے ملک میں آج تک کتنے وزیر مستعفی ہوئے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے آبزرویشن دی کہ الیکشن کمیشن اگر فارن فنڈنگ کیس کی انکوائری کر رہا ہے تو کیا وزیراعظم مستعفی ہو جائیں؟ عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق کچھ مزید سوالات اٹھاتے ہوئے مزید سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعہ کے روز کیس کی سماعت کی تو جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار احسن عابدسے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ خسرو بختیار وفاقی وزیر ہونے کے ساتھ شوگر ملوں کے مالک بھی ہیں اور انکی شوگر ملوں کیخلاف نیب انکوائری چل رہی ہے،انہوںنے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کون سا قانون کہتا ہے کہ اگر ایک وفاقی وزیر کے خلاف انکوائری شروع ہو جائے تو اسے عہدے سے مستعفی ہونا چاہئے؟، آپ نیب کے قانون یا آئین کے حوالے سے یہ بات ثابت کر یں کہ وفاقی وزیر کا انکوائری کی صورت میں مستعفی ہونا ضروری ہے،جس پردرخواست گزار نے کہاکہ عوامی نمائندگی کا قانون کہتا ہے کہ پبلک آفس ہولڈر صادق اور امین ہونا چاہئے،جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ درخواست میں اٹھایا گیا بنیادی سوال ہی یہی ہے کہ وفاقی وزیر خسرو بختیار اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ فاضل جج نے درخواست گزار کو کہا کہ آپ کے کیس میں کوئی جان نظر نہیں آ رہی ہے، آپ نے مثال دی ہے کہ دوسرے ملکوں میں ریلوے حادثے پر وزیر مستعفی ہو جاتے ہیں۔

تازہ ترین