• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا یہ محض خوش فہمی تھی کہ پاکستان افغان طالبان، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مابین صلح صفائی کرائے گا اور یہ صلح امریکہ اور ’’اسلامی امارات افغانستان‘‘ کے مابین دوحہ معاہدے کی صورت کروائی بھی گئی۔ لیکن صلے میں ملا بھی تو کیا فقط کوئلوں کی دلالی میں منہ ہی کالاہوا۔ 

یہ صورت پیدا ہوچلی ہے کہ افغان طالبان پاکستانی انتظامیہ اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)میں صلح اور جنگ بندی کے لیے ثالث کا کرداراداکررہے ہیں۔ 

وزیراعظم عمران خان چونکہ کسی بھی تنازعہ میں فوجی حل کے مستقل مخالف ہیں، نے انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ عام معافی اور واپسی کے لئے بات چیت چل رہی ہے۔ 

ایسی بات چیت کے ماضی میں بھی کئی دور چلے تھے اور ہر بار تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑوں نے مختلف معاہدوں سے خوب فائدہ اٹھا کر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا تھا اور ان کی پاکستان کے خلاف دہشت گردی اسلام آباد کے قرب و جوار اور ملک بھر میں پھیلتی چلی گئی تھی۔ 

امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے وقت بھی وہ افغان طالبان، القاعدہ اور داعش کے ہم رکاب رہے تھے اور اب بھی وہ خاص طور پر افغان طالبان اور ان کے امیر کی شرعی اطاعت و بیعت پہ قائم ہیں۔ 

گزشتہ مہینوں میں دہشت گردی میں اضافے کے بعد، اب پاکستانی طالبان نے یکم اکتوبر سے 20 اکتوبر تک جنگ بندی کا اعلان کیا ہے اور اپنی ڈیڈ لائن میں اضافے کو بات چیت میں پیش رفت سے منسلک کیا ہے۔ یہ افغان طالبان ہی ہیں جنہوں نے تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے مختلف دھڑوں کو متحد کیا، سینکڑوں کو جیلوں سے رہا کیا اور اب بات چیت پر بھی راضی کرلیا ہے۔ 

افغان طالبان بھی ٹی ٹی پی کے تاریخی طور پربہت ممنون ہیں کہ جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں امریکہ کا اتحادی بنااور اس کی افواج کو تمام تر سہولتیں فراہم کی گئیں تو اس وقت ٹی ٹی پی نے پاکستان کو دہشت گردی کے جہنم میں بدل دیا تھا۔ 

تحریکِ طالبان افغانستان نے اپنے مقتدی پاکستانی طالبان کو اپنے نام نہاد سرپرست (پاکستان) مگر امریکی اتحادی کے خلاف خوب استعمال کیا اور وہ تمام اسباب اور ضروری رسد فراہم کی جن کی ایک گوریلا تحریک کو سرحد پار سے ضرورت ہوتی ہے۔ مستقبل میں بھی ٹی ٹی پی بطور ایک پریشر گروپ اسلامی امارات افغانستان کو سیاسی و سفارتی اور ضرورت پڑنے پر حربی مدد فراہم کرتی رہے گی۔ 

آج افغان طالبان افغانستان کے تن تنہا مالک ہیں، کل کلاں طالبان پاکستان کے حکمران بھی ہوسکتے ہیں اور اس کے لئے بڑے بڑے جغادری تزویراتی ماہرین اور مولانا حضرات ابھی سے فضا بنارہے ہیں۔ ویسے بھی اجماع امت ہے کہ اللہ کے دین کا تمام دنیا میں بول بالا ہونا ہے اور پاکستان تو بنا ہی اس کے نام پر تھا۔ 

لگتا ہے کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں کے قتل عام کے بعد دہشت گردی کے خلاف جس نیشنل ایکشن پلان پہ قومی اتفاق رائے ہوا تھا، اب اُس قومی مینڈیٹ کو اُلٹ دیا گیا ہے، جس پر حزب اختلاف نے جائز طور پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے کہ اتنی بڑی پالیسی کی تشکیل پارلیمنٹ کے اتفاقِ رائے کے بغیر ممکن نہیں تھی لیکن پارلیمنٹ ہے کس باغ کی مولی؟

دوسری طرف افغانستان میں امریکہ کی طویل ترین جنگ کے شرمناک ڈراپ سین پر امریکی کانگریس میں حکمران ڈیموکریٹک پارٹی اور حزب مخالف اور ٹرمپ کی داعی ریپبلکن پارٹی کے مابین خوفناک الزام بازی کا بازار گرم ہے۔ لیکن سیانے کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس روندی جاتی ہے۔ 

امریکی کانگریس میں ہر طرح کی ناکامیوں کے اعتراف کے بعد تان ٹوٹنے جارہی ہے بھی تو اسلامی امارات افغانستان اور پاکستان پر۔ صدر بائیڈن اور ڈیموکریٹک پارٹی تو بہت پہلے سے ہی پاکستان کے ’’مبینہ دوغلے‘‘ کردار کے شاکی رہے ہیں اور اس دوران بائیڈن انتظامیہ کے پاکستان سے تعلقات بدترین سرد مہری کا شکار رہے۔ 

اب حملہ آور ہوئے ہیں بھی تو 22 ریپبلکن سینیٹرز جنہوں نے ایک تادیبی بل افغان طالبان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے، پاکستان کو دہشت گردی کی پشت پناہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے پیش کیا اورتحقیقات کا مطالبہ کیا ہے بلکہ سخت تادیبی بندشوں (Sanctions) کا تقاضہ کیا۔ 

اسے کہتے ہیں کہ پھندہ تیار ہے! (Die is Cast)۔ امریکی کانگریس کی طاقتور کمیٹیاں تحقیقات کے لیے متحرک ہوگئی ہیں اور قربانی کے دو بکرے افغانستان اور پاکستان نئی امریکی تادیبی بندشوں کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ 

افغانستان تو بے حال ہے، اس میں اپنے پائوں پر کھڑا رہنے کی سکت نہیں اور اسلامی امارات افغانستان کے پاس سوائے وحشت ناک سزائیں دینے کے کوئی نسخہ کیمیا نہیں اور بیرونی امداد کی کنجی امریکہ بہادر کے پاس ہے۔ 

گو کہ ہم مسلمان صرف اللہ کے حضور ہی دعا گو ہیں۔ قرائن بتارہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت اور اس کے وزرا، دہشت گردوں کی فہرست میں شامل رہیں گے اور انہیں جو عالمی انسانی امداد ملے گی بھی تو سخت شرائط کے ساتھ۔ 

افغانستان ویت نام تھا نہ افغان طالبان ویت کانگ جنہوں نے تین سامراجی طاقتوں کو شکست دے کر ایک ترقی یافتہ ویت نام کھڑا کردیا جو کسی کا محتاج نہیں ہے۔ افغانستان ایک بار پھر اپنے ہمسائیوں اور خاص طور پر پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا کے لیے عذاب الٰہی بننے جارہا ہے۔ 

اوپر سے پاکستان پر پھر سے امریکی پابندیوں کا پرانا سلسلہ زیادہ شدومد سے بحال ہونے جارہا ہے۔ گو کہ پاکستان پہلے بھی پریسلراور کیری لوگر ترامیم کی صورت میں نتائج بھگت چکا ہے، لیکن اس بار یوں لگتا ہے کہ شکنجہ کئی اطراف اور کثیر جہتوں سے کسا جائے گا۔ 

کیری لوگر بل کا کچھ فائدہ سول حکومت کو ضرور ہوا تھا، لیکن اس بار سبھی ایک صفحے پہ ہوں گے اور ایک نشانے پہ بھی اور یہ ایسے وقت میں ہونے جارہا ہے جب امریکہ میں پاکستان کا کوئی بھی حامی نہیں اور ہماری سفارت کاری کبھی کی حربی پھرتیوں کے ہاتھوں اپنی عصمت گنوا چکی ہے۔ 

ہمارے تزویراتی ماہرین نے چار دہائیوں سے زیادہ ایک موکل ریاست کے طور پر نام نہاد ’’گریٹ گیم‘‘ میں دونوں بڑی سپر طاقتوں کے خوب چھکے چھڑوائے اور ہمارے ذوق خدائی والے سالار فرنٹ فٹ پر کھیلنے کے بڑے ہی ماہر پائے گئے ، لیکن اب چھکا لگنے والا نہیں، اپنی وکٹ کی فکر کیجئے جسے گرانے کے لیے عالمی ایمپائر کی انگلی کھڑی ہونے کو بیتاب ہے۔ ایسے دگرگوں حالات میں ، میں پا بہ گِل، میں بے نشاں، پاک سرزمین پہ سایہ ذوالجلال کی دعا ہی کرسکتا ہوں!

تازہ ترین