کوئٹہ(نمائندہ جنگ)میڈیکل کالجز انٹری ٹیسٹ کے طلباء و طالبات کا پولیس کی رکاوٹیں عبور کرتے ہوئے ایک بار پھر زرغون روڈ پر ریڈ زون کے سامنے احتجاجی دھرنا ، دھرنا کے باعث ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر، دھکم پیل کے دوران پولیس اہلکار ، طالبہ زخمی ، ٹریفک میں پھنسی گاڑی میں سوار گارڈز کی ہوائی فائرنگ سے ریڈ زون میں بھگدڑ مچ گئی،کوئٹہ پریس کلب کے سامنے دھرنا پر بیٹھے میڈیکل انٹری ٹیسٹ طلباء نے مطالبات منظور نہ ہونے پر دھرنا ریڈ زون منتقل کرنے کا اعلان کردیا ،یاقت شاہوانی نے کہا کہ پی ایم سی بات نہیں سنتا تو دیگر صوبوں کیساتھ مسئلہ اٹھائینگے،جبکہ طلباء نے کہا کہ وفاقی نمائندے کوئٹہ آکر بات سنیں، پیر کو پولیس نے میڈیکل انٹری ٹیسٹ طلباء کو ریڈ زون کی جانب جانے سے روکنے کیلئے پریس کلب کے اطراف رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے بھاری نفری تعینات کردی تاہم طلباء تمام رکاوٹیں ہٹاکر ریلی کی صورت میں ریڈ زون کے سامنے پہنچ گئے۔ ریڈ زون کی جانب جانے والے طلباء کو پولیس کی جانب سے روکنے پر طلباء اور پولیس میں دھکم پیل بھی ہوئی جس سے ایک پولیس اہلکار اور ایک طلبہ زخمی ہوگئی ،طلباء کی ریلی کے دوران ریڈ زون سے ملحقہ سڑک پر ٹریفک میں پھنسی گاڑی میں سوار محافظوں نے ہوائی فائرنگ کی جس سے طلباء اور شہریوں میں بھگدڑ مچ گئی ۔ ریڈزون میں دھرنے پر بیٹھے طلباء رہنماؤں سے بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے مذاکرات کرتے ہوئے طلباء کو یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان حکومت میڈیکل اسٹوڈنٹس کے جائز مطالبات کی حمایت کرتی ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان اور پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ بلیدی نے میڈیکل اسٹوڈنٹس کے امتحانات میں شکایات سے متعلق پاکستان میڈیکل کمیشن کو دو مراسلے بھجوائے ہیں۔ اگر پاکستان میڈیکل کمیشن بات نہیں سنتا تو ہم دیگر صوبوں کیساتھ اس مسئلہ کو اٹھائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت طلباء کے جائز مطالبات کیلئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار رہی ہے ، انٹری ٹیسٹ سے متعلق صرف بلوچستان کے طلباء کو ہی شکایات نہیں بلکہ پورے ملک میں طلباء اس حوالے سے سراپا احتجاج ہیں ۔اسلام آباد میں 10 روز سے طلباء احتجاج کررہے ہیں ، انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت میڈیکل اسٹوڈنٹس کے مطالبات کے حل کیلئے کوشاں ہے، طلباء ریڈ زون کے سامنے احتجاجی دھرنا ختم کردیں ، اس موقع پرطلباءرہنماؤں نے موقف اپنایا کہ وہ گزشتہ ایک ماہ سے سراپا احتجاج ہیں مگر اس دوران کسی حکومتی نمائندے نے ان سے رابطہ تک نہیں کیا ، انہوں نے کہا کہ ہمارا ایک ماہ ضائع کردیا گیا ، اس دوران ہم نے چیف سیکرٹری بلوچستان ، کمشنر کوئٹہ ڈویژن اور صوبائی وزراء سے ملاقاتیں کیں مگر ہمیں بتایا گیا کہ یہ مسئلہ وفاق کا ہے اور گورنر بلوچستان یہاں وفاق کے نمائندے ہیں مگر انہوں نے ہماری کوئی بات نہیں سنی ۔ انہوں نے کہا کہ طلباء اب وفاق کے نمائندوں سے ہی مذاکرات کریں گے، وفاقی نمائندے کوئٹہ آئیں ہماری بات سنیں، مسئلہ کے حل کیلئے سینیٹ یا قومی اسمبلی کی کمیٹی بنائی جائے ۔ طلباء رہنماؤں کہا کہ ہم اپنی ذات کیلئے نہیں صوبے کے مستقبل کیلئے نکلے ہیں ۔بلوچستان کے ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد احتجاج میں شریک ہوکر ہمیں مضبوط کریں ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ طلباء پر تشدد اور فائرنگ کے واقعہ کا مقدمہ درج کیا جائے۔