ایم اے جناح روڈ پر واقع بلدیہ عظمیٰ کراچی کی تاریخی عمارت اپنی بناوٹ اور اہمیت کے اعتبار سے کراچی کی قدیم اور دیدہ زیب عمارتوں میں سے ایک ہے۔اس عمارت کا سنگ بنیاد 14دسمبر 1895ء کو گورنر بمبئی لارڈ سیڈ برسٹ (جی سی آئی ای) نے رکھا۔ 1915ء میں اس کی بنیاد کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔5نومبر 1927ء کو موجودہ عمارت کے شرقی حصے کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 31دسمبر 1931ء کو عمارت کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچی۔
یہ شاندار عمارت جو کراچی کی پہچان اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کا صدر دفتر ہے ،اسلامی طرز تعمیر اور مصری و ہسپانوی فن تعمیر کا حسین امتزاج ہے۔ اسے معروف آرکیٹکٹ جیمز سی ویونیس (James-C-Wyunes)نے ڈیزائن کیا۔ ابتدائی تعمیر کے کاموں کی نگرانی کراچی میونسپلٹی کے چیف انجینئر میشان لی (Mesham Lea)نے کی اور یہ کام 1915ء میں مکمل ہوا۔ عمارت کا تعمیراتی ڈھانچہ (Super Structure)ایگزیکٹو انجینئر جہانگیر این سیٹھ کی نگرانی میں 5نومبر 1927ء کو مکمل کیا۔
عمارت میں نصب افتتاحی تختی پر اس کی تعمیر میں حصہ لینے والے دیگر افراد کے نام بھی درج ہیں جس کے مطابق اس عمارت کو تعمیر کرنے کا ٹھیکہ پیروکنکریٹ کنسٹرکشن کمپنی نے لیا ۔ مالک کا نام شاپر جی پالون جی (Shapur Ji Pallon Ji)تھا۔ تعمیراتی کام کا حساب کتاب رکھنے کے لیے کلرک ولیم پیرس (William Peeris) او رایس جے کاسٹلینو (S.J. Castellino)نے فرائض انجام سر انجام دیے۔17,75000روپے کی لاگت سے بلدیہ کی یہ عمارت 31دسمبر 1930ء کو پایۂ تکمیل کو پہنچی، جس کا باقاعدہ افتتاح 7جنوری 1932ء کو کراچی کے شہریوں کی موجودگی میں کیا گیا۔
یہ عمارت 7جنوری 1932ء سے اکتوبر 1933ء تک بمبئی ڈسٹرکٹ ایکٹ مجریہ 1901ء کے تحت قائم کراچی میونسپلٹی کے صدر دفتر کی حیثیت سے زیر استعمال رہی۔ اس وقت نسروانجی مہتا کراچی میونسپلٹی کے منتخب صدر تھے ،جو اپریل 1922ء سے 1934ء تک مسلسل کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے۔ یہاں 1852ء میں کراچی میونسپل کمیشن کے قیام سے 1933ء تک مختلف ادوار میں تاریخی فیصلے کیے گئے۔ 8ستمبر 1952ء کو ایچ بی ای فریئر کمشنر ان سندھ بالحاظ عہدہ کراچی میونسپل کمیشن کے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اس طرح انہیں کراچی میونسپل کمیشن کے پہلے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
سرخ پتھروں سے بنی اس عمارت کا گھنٹہ گھر دور سے ہی عمارت کی نشاندہی کردیتا ہے۔ بالائی چھت پر چارگنبد اور درمیان میں سامنے کی جانب مرکزی دروازے پر 162فٹ اونچا ٹاور ہے جس کے چاروں جانب گھڑیال نصب ہے۔عمارت کا رقبہ 21150اسکوائر فٹ ہے، جبکہ مکمل رقبہ 179200اسکوائر فٹ ہے۔ پیچھے کی جانب اینیکسی تعمیر کی گئی ہے جس کا رقبہ 17815 اسکوائر فٹ ہے۔ کے ایم سی بلڈنگ کے ٹاور پر ایک گھڑیال نصب ہے ۔ جو چاروں اطراف سے نظر آتا ہے ۔ اس گھڑیال کا ڈایا 10فٹ ہے۔ اس گھڑیال کو سوئیڈش الیکٹرک کلاک کمپنی بمبئی نمبر7 (Swedish Electrical Clock Company Bombay No. 7) نے تیار کیا تھا۔گھڑی کی مشینری 4منزلوں پر مشتمل ہے۔ یہ گھڑیال کششِ ثقل نظام (Central Gravety)کے تحت کام کررہی ہے۔
25اگست 1947ء کا دن بلدیہ کراچی کی تاریخ میں یادگار رہے گا ۔ اس دن بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اپنی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان کے ہمراہ شہریوں کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے استقبالیہ میں تشریف لائے ،جہاں ان کا استقبال اس وقت کے میئر حکیم محمد احسن اور منتخب اراکین نے کیا۔ قائد اعظم نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کراچی شہر کو اپنا عزیز ترین شہر قرار دیا۔ عمارت کی دوسری منزل پر ایک بڑا ہال ہے، جہاں کراچی کے مختلف علاقوں سے منتخب ہونے والے نمائندوں کے اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں۔
ان اجلاس میں ہی دراصل کراچی کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ منتخب اراکین ہی اپنے اجلاسوں میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کراچی کی کس سڑک کو تعمیر کرنا ہے ‘ کس جگہ اسکول بنانا ہے اور کس جگہ مارکیٹ۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اربوں روپے کا بجٹ کہاں کہاں استعمال ہونا ہے یہ فیصلے اسی کونسل ہال میں اراکین کی موجودگی میں کیے جاتے ہیں۔2001-02میں بلدیہ کا بجٹ 42ارب تک جا پہنچا تھاجو کسی بھی بلدیاتی ادارے کا سب سے بڑا بجٹ تھا۔ اسی منزل پر میئر کراچی اور ڈپٹی میئر ‘ کونسل سیکریٹریٹ اور مشیر مالیات کے دفاتر بھی ہیں۔
جودھ پور کے سرخ پتھروں سے تیار کی گئی یہ منفرد عمارت اپنے زمانے کی نہایت عمدہ شاہکار ہے۔ اس کے چاروں طرف موجود گنبد اس کی دلکشی میں چار چاند لگاتے ہیں ۔ طویل و عریض عمارت ہونے کے باوجود آج کراچی جیسے وسیع آبادی والے شہر کی ضرورتوں کے مقابلے میں اب یہ عمارت چھوٹی پڑتی جا رہی ہے۔ پہلی منزل اور دوسری منزل پر کشادہ برآمدے ہیں جو اس عمارت کی اصل شان ہیں ۔ عمارت کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اگر بجلی نہ ہو تب بھی کمروں میں بیٹھے ہوئے افراد کو گرمی کا احساس نہیں ہوتا۔ بڑی بڑی کھڑکیوں اور روشن دانوں سے ہوا کمروں میں داخل ہوتی رہتی ہے۔ اس کے مغلی انداز کے گنبد ‘ بالکونیاں‘ نوکیلی محرابیں دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہیں۔
قیام پاکستان کے بعدبلدیہ عظمیٰ کراچی کی عمارت کے احاطے میں 1951-52ء میں مسجد کی تعمیر عمل میں آئی۔ 1962ء میں بنیادی جمہوریت کے آغاز کے بعد اراکین بلدیہ کی تعداد بڑھی تو مسجد بلدیہ میں بھی دوسری منزل کا اضافہ ہوا۔ وضو خانہ اور دیگر توسیعی کام 1968ء میں پورے ہوئے۔ مسجد کا انتظام مجلس منتظمہ کرتی ہے ۔
واضح رہے کہ اس وقت کے صدر مملکت کے احکام کے مطابق بلدیہ کے ہر اجلاس سے قبل تلاوت و ترجمہ کا اہتمام مسجد بلدیہ کے اس وقت کے پیش امام قاری محمد رضوان کے سپرد تھا۔ بعد ازاں یہ ذمہ داری موجودہ پیش امام اور خطیب مولانا محمد احمد سلیمی کے ذمہ ہے جو نماز کی امامت کے ساتھ ساتھ بلدیہ کراچی کے اجلاسوں میں بھی تلاوت قرآن حکیم کا شرف حاصل کرتے ہیں۔
پہلی منزل پر واقع کونسل ہال اس وقت کی ضرورت کے پیش نظر تعمیر کیا گیا تھا ۔ آبادی کے ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً منتخب نمائندوں کی نشستوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ اور اس ہال میں ردوبدل کے ساتھ نشستوں کی گنجائش نکالی جاتی رہی۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کو 1933ء میں میونسپل کارپوریشن کا درجہ دیا گیا تو نشستوں کی تعداد 57تھی اور ہال میں کافی گنجائش تھی۔
1953میں بلدیاتی نشستوں میں اضافہ کر کے 100کر دیا گیا۔ 1960ء میں بلدیاتی نظام میں پھر تبدیلی ہوئی تو نشستوں کی تعداد کو کم کر کے 58کیا گیا۔ 1966ء میں پھر ان میں اضافہ کر کے 103کر دیا گیا۔ 1979ء میں ملک میں ایک تبدیل شدہ بلدیاتی نظام نافذ ہوا تو کراچی میں بلدیاتی نشستوں کی تعداد 166ہوگئی، جس کے لیے ہال میں اتنی گنجائش تھی ۔
اگلے انتخابات 1983ء منعقد ہوئے تو نشستوں میں اضافہ ہوا اور تعداد 232 ہوگئی اس کے لیے ایک بار پھر اس کونسل میں رد وبدل کیا گیا۔ 1987ء میں کراچی میں دوسطحی نظام نافذ ہوا تو ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کا نظام نافذ ہوا ۔ بلدیہ عظمیٰ کے لیے منتخب نمائندوں کی تعداد ایک بار پھر 77ہوگئی۔
2001ء میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا تو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل کے لیے 255ممبر منتخب کیے گئے۔ ان کے لیے ہال میں گنجائش ناکافی تھی۔ اس ہال کو ایک بار پھر تزئین و آرائش کے مرحلے سے گزارا گیا اور نئے سرے سے تعمیر کیا گیا جس پر لاگت کا تخمینہ 14.464ملین روپے تھا۔ چار مہینے کی مختصر مدت میں اس ہال کی تعمیر اور تزئین و آرائش مکمل کر لی گئی او ریہاں باقاعدہ اجلاس منعقد کیے جانے لگے۔ کونسل ہال میں قائد اعظم کی ایک قد آور تصویر کے ساتھ ساتھ تین بڑے فانوس بھی لگائے گئے اور اسے مکمل ایئر کنڈیشن بنا دیا گیا۔
نئے ہال کا ڈیزائن ممتاز آرکیٹکٹ ضیغم جعفری نے تیار کیا اور اس کا باقاعدہ افتتاح اس وقت کے نائب ناظم طارق حسن نے 17دسمبر 2004ء کو کیا ۔ جنوری 2021ء میں کے ایم سی بلڈنگ کی تعمیر کے 89سال مکمل ہوچکے ہیں۔ شہری ضلع حکومت کراچی کی جانب سے 75سال مکمل ہونے پراس کی پلاٹینم جوبلی منانے کے لیے ہمارا کراچی کے نام سے تقریبات کا انعقاد 6جنوری تا 18جنوری 2007ء کو کیا گیاتھا۔
ان پروگراموں میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ بلدیاتی نظام پر مشتمل مختلف ادوار کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ گزشتہ75سالوں میں یہ بلڈنگ شہریوں کو بلدیاتی سہولیات مہیا کرنے کے ضمن میں جن بلدیاتی نشیب و فراز سے گزری نہ صرف ان کی مکمل تفصیل جامع اور مختصر انداز میں پیش کی جائے بلکہ کراچی سے وابستہ مختلف شخصیات سے بھی شہریوں کو آگہی فراہم کی جائے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کی اس عمارت میں مختلف سربراہان مملکت کو شہری استقبالیہ دئے گئے، جبکہ دنیا کے مختلف شہروں کے میئرز نے اس عمارت کا دورہ کیا اور اسے متاثر کن عمارت قرار دیا۔ مختلف مواقعوں پر ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والے میئرز نے اسی عمارت میں فرائض منصبی ادا کیے اور کراچی کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا۔
جو افراد کونسلر کے طور پر منتخب ہو کراس عمارت میں پہنچے، بعد ازاں ان ہی شخصیات نے ملکی سیاست میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ کراچی کی یہ عمارت جو میونسپل آفس کے طور پر ہی تعمیر کی گئی آج بھی اپنی دلکشی اور خوبصورتی کے باعث ہر شخص کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے، اور کراچی کی پہچان ہے۔