• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’زیادتی کیس‘ ملزم کو 24 سال قید اور 95 لاکھ جرمانے کی سزا سنادی گئی

تھر کی عدالت نے زیادتی کیس کا فیصلہ ایک سال بعد سنا دیا جس میں مجرم کو 24 سال قید اور 95لاکھ روپے کی سزا سنائی گئی۔ جنگ کو موصولہ تفصیلات کے مطابق ، تھر کی تحصیل ڈیپلوکے نواحی گاؤں کونئرل میں 17سالہ لڑکی لیلان میگھواڑ نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی تھی۔پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر لاش پوسٹ مارٹم کے لیے تعلقہ اسپتال ڈیپلو پہنچائی ، جہاں ڈاکٹروں نے لڑکی کے سات ماہ کاحمل ہونے کی تصدیق کی ۔ متوفیہ کی موت کے بعد اس کے والد سومجی نے مقدمہ درج کرایا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ علاقے کے ایک بااثر شخص نے میری بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنایا ،ہمیں اس واقعے کا علم لڑکی کی موت کے بعد، پوسٹ مارٹم کی رپورٹ ملنے کے بعدہی ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں شک ہے کہ لڑکی کو زبان بند رکھنے کے لیے دھمکیاں بھی دی گئی تھیں ، اس کے علاوہ اسے اتنی ذہنی اذیتیں دی گئیں کہ وہ اپنی زندگی کے خاتمے پر مجبور ہوگئی۔ متوفیہ کے باپ کی طرف سے ٹھاکر برادری سے تعلق رکھنے والے شخص ’’کونپجی ‘‘کو اس مقدمے میں ملزم نام زد کیاگیا۔ ڈیپلو تھانے میںملزم کے خلاف زنا،حمل ضائع کرانے کے لیے دباؤ ڈالنے اورخودکشی پر مجبور کرنے کا مقدمہ درج کرایا گیا۔

مدعی نے موقف اختیار کیاتھا کہ ملزم نے لڑکی سے زبردستی زیادتی کی، جس کے بعد وہ اسے مسلسل بلیک میل کرتارہا۔ ہمیں لڑکی نے اس کی دھمکیوں کے بارے میں بتایا تو ہم نے کونیجی کے والدین سے شکایت کی ، مگر انہوں نے ہماری شکایت سننے کے بجائے ہمیں ڈرایا دھمکایا اور کہا کہ اپنی زبان رکھو ورنہ زبان کھولنے کی صورت میں گاؤں سے نکال دیا جائے گا۔

عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم نے اقرار جرم سے انکار کردیا تھا ۔جس پر عدالت کی جانب سے ڈی این اے ٹیسٹ کے احکامات جاری کئے گئےجس کی رپورٹ میں ڈی این اے کے اجزاء لڑکی سے میچ ہو گئے اور رپورٹ میں اس کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کی گئی۔ ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد ملزم نے معاملہ کو نیا رخ دینے کی کوشش کی اور عدالت کو بتایا کہ اس لڑکی سے میں نے خفیہ شادی کی تھی اور شادی کے بعد وہ حاملہ ہوئی تھی۔اس کا کہنا تھا کہ لڑکی کے والدین کو جب اس کے حاملہ ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے اسے قتل کر کے لاش کو پھندا لگا کر لٹکایاتھا۔

عدالت نے اس الزام کی تحقیقات کے لیے پولیس کو حکم دیا لیکن تفتیش کے نتیجے میں ملزم کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا۔ حالات و واقعات اور فرانزک رپورٹ میں بیان کیے گئے حقائق کو دیکھتے ہوئے عدالت نے مقدمے کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔دوہفتےقبل ایڈیشنل سیشن جج مٹھی کی عدالت نے اس مقدمے کا فیصلے سناتے ہوئے زنا،حمل ضائع کرانے اورخودکشی پر مجبور کرنے کا جرم ثابت ہونے پر ملزم کونپجی ٹھاکر کو 24سال قید اور94لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا کر جیل بھیج دیا۔ فیصلے کے مطابق زنا کے جرم میں24سال قید اور دس لاکھ جرمانہ،خودکشی پر مجبور کرنے کے جرم میں42لاکھ جرمانہ،حمل ضائع کرانے کا سبب بننے کے جرم میں 42لاکھ دیت کا فیصلہ سنایا گیا۔

تھر میں ہونےو الی خودکشیوں کے تمام واقعات کی پولیس کی جانب سے اتفاقی واقعات کی رپورٹ درج کی جاتی رہی ہے۔ زیادہ تر کیسوں میں پولیس کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ جب خودکشی کرنے والوں کے ورثاء کوئی رپورٹ درج ہی نہیں کرواتے تو ہم اپنے طور سے خودکشی کا مقدمہ درج کرتے ہیں۔ پولیس تحقیقات میں خودکشیوں کے پیچھے پوشیدہ وجوہات جاننے کے لیے کبھی کوشش نہیں کی گئی۔

ایک ماہ قبل سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی کی جانب سے تھر میں خودکشیوں کے متعلق جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تھر میں خودکشی کرنے والے زیادہ تر افراد 60سال سے کم عمر کے نوجوان ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان رپورٹس کو مد نظر رکھتے ہوئے عملی اقدمات کیے جائیں۔ 

اس ضمن میں نمائندہ جنگ نے ایڈووکیٹ فقیر منور ساگر کا مؤقف معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ تھر میں سماجی تفریق، چھوٹی بڑی برادریوں کی آپس میں لین دین کے مسائل بھی خودکشیوں کا سبب بن رہے ہیں۔ پولیس خودکشی کا ہر واقعہ روایتی طور پر دیکھتی ہے جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کوروکنا مشکل ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین