• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل کچھ لوگ پستی کے گرداب میں پھنسے نظر آ رہے ہیں۔ ان کی منزل جوں جوںان سے دور ہورہی ہے اتنی ہی تیزی سے یہ لوگ مردہ گھوڑوں کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔

ایک طرف پاکستان مسلم لیگ (ن) خاندان کے دو گروپوں کے درمیان تقسیم اور دوسری طرف پیپلزپارٹی وینٹی لیٹر پر مشکل سے سانس لیتی ہوئی۔ یہ وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے چند کرائے کے سپاسی نئے سرے سے ان مردہ گھوڑوں میں زندگی ڈالنے کی سعی میں مصروف ہیں جن کے ماضی کے ادوار ملک میں رشوت اور کنبہ پروری کے فروغ کے لئے بدنام ہیں۔ ان پارٹیوں کی لیڈر شپ تو ہر صورت ان کے خاندانوں تک ہی محدود رہتی ہے لیکن اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے انہوں نے ریاستی اداروں کو مکمل تباہ کیا اور وہاں قابلیت کے برخلاف اپنے سرکردہ نوکروں کو متعین کیا تاکہ رشوت کو فروغ دینے میں ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ موجود نہ رہے۔اپنے مستقبل سے ناامید ہونے کی وجہ سے ان لوگوں نے حکومت کے ہر اچھے اقدام کو اس کی ناکامی سے تشبیہ دینا شروع کر دیا ہے۔ بعض اوقات اپوزیشن جماعتیں اس سے بھی آگے بڑھ جاتی ہیں اور ریاستی پالیسیوں اور منصوبوں پر کڑی تنقید کی جاتی ہے جو دراصل ان کے زہر آلود رویوں کی ترجمان ہے۔

پنڈورا پیپرز کے انکشافات کے بعد مضحکہ خیز مطالبات سامنے آ رہے ہیں۔ ملک کے ایک سابق وزیراعظم کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے 700 کے لگ بھگ شخصیات کوفوری سزا دی جائے کیونکہ ماضی میں اسی طرز کے پانامہ پیپرز کی بنیاد پر نواز شریف کو سزا دی گئی تھی۔ میاں صاحب کو سزا دینے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ تحقیقاتی اداروں کو اپنے اثاثوں کی بیرون ملک منتقلی، غیرملکی جائیدادوں کی خریداری اور کاروبار کیلئے رقوم کی ترسیل کے ذرائع فراہم کرنے میں ناکام رہے جس کے لئے نواز شریف کو 2 برس کا عرصہ دیا گیا لیکن وہ ٹال مٹول سے کام لیتے رہے اور جو شواہد پیش کئے وہ بھی جھوٹ اور جعلسازی پر مبنی نکلے۔ یہاں تک کہ تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والے شخص نے پارلیمنٹ کے فورم پر بھی غلط بیانی سے کام لیا۔ سزا پانے کے بعد علالت کا بہانہ بنا کر بیرون ملک علاج کے لئے جعلی میڈیکل رپورٹ جمع کرائی لیکن حقیقت میں نہ تو ان کا ابھی تک علاج شروع ہوا ہے اور نہ ہی ان کی وطن واپسی ہوئی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک ایسے شخص کو ’’کلین چٹ‘‘ دلوانے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے جو دیانتداری سے عاری ہے۔

دوسری جانب حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ناقدین یہ بھول جاتے ہیں کہ جنگ ایک مستقل عمل نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام جنگوں اور تنازعات کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ریاست کیخلاف دہشت گرد کارروائیوں کا آغاز کیا تو اس کے خلاف بھرپور آپریشن کیا گیا جو بالآخر دشمن قوتوں کی شکست پر منتج ہوا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں ٹی ٹی پی کی زیادہ تر قیادت افغانستان فرار ہو گئی جہاں سے انہوں نے اُس وقت کی افغان حکومت اور بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے تعاون سے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کے لئے جارحانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ طالبان کی جانب سے افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ پاکستان اس پوزیشن میں ہے کہ ریاست مخالف عناصر کے ساتھ مذاکرات کرکے دہشت گرد کارروائیوں کی لعنت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا جائے۔ ہم یہ نہیں بھولے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت نے بےگناہ لوگوں کے خلاف ناقابلِ بیان گھنائونے جرائم کا ارتکاب کیاہے۔ ان والدین کے دکھوں کا کبھی مداوا نہیں ہو سکتا جنہوں نے اپنے سامنے بےگناہ بچوں کا خون بہتے دیکھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی سنگین واقعات رونما ہوئے۔ ہمارے کئی بہادر افسروں اور جوانوں نے ملکی سلامتی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے جبکہ عام شہری بھی ٹی ٹی پی کے ظلم کا نشانہ بنے۔ بلاشبہ ان غموں کو کسی صورت نہیں بھلایا جا سکتا۔ آج پاکستان کیلئے شاید وہ وقت آن پہنچا ہے کہ اس تنازعہ کوہمیشہ کیلئے خیرباد کہہ کر پاکستان کو معاشی لحاظ سے مضبوط بنانے کی جانب گامزن کیا جا ئے۔ مغربی سرحد کے پار افغانستان میں دوستانہ حکومت کے قیام کے بعد یہ ایک موزوں وقت ہے کہ مذاکرات کے دروازے کھولے جائیں تاکہ مستقبل کے خطرات کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قلع قمع کیا جا سکے۔ امن کے قیام کیلئے شروع کی گئی مخلصانہ کوششوں پر بلاجواز تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔ وقت آ گیا ہے کہ ریاستی مفادات کیلئے ہم اپنے رویوں پر نظرثانی کریں کیونکہ ذاتی مفادات کبھی ریاستی مفادات پر مقدم نہیں ہو سکتے۔ اس وقت پاکستان عالمی سطح پر ایک نئی شناخت کے ساتھ ابھر رہا ہے جہاں شفافیت اور جوابدہی کا میکانزم وضع کیا گیا ہے اور ریاستی امور کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر بغیر کسی سمجھوتے کے چلایا جا رہا ہے جو ماضی کی روایات کے بالکل برعکس ہے۔ آج پاکستان امن کے حصول اور باہمی معاشی روابط کے ذریعے عالمی برادی کو اکٹھا کرنے کے لئے کی جانے والی مخلصانہ کوششوں کے طور پر پہچانا جاتا ہے جو ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنائے گا۔ آج پاکستان کلائمیٹ (Climate) پالیسی ’’سرسبز پاکستان‘‘ بلین ٹری منصوبے اور اداروں میں شفافیت لانے اور انہیں جوابدہ بنانے کے عزم کے ساتھ ساتھ لوگوں کو سہولیات پہنچانے کے لئے انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام میں مصروف عمل ہے جس کو دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔

(صاحبِ تحریر وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کار اور ادارۂ علاقائی امن کے بانی ہیں)

تازہ ترین