• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعدجہاں ایک طرف پاکستان میں خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف افغانستان کے حالات بدتر ہونے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔اندرونی طور پر خواتین کے ساتھ ناروا سلوک اور میڈیا کی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے۔ 

ساتھ ساتھ خواتین کے کام کرنے کی کوئی پالیسی واضح نظر نہیں آتی ۔ ان ناقص پالیسیوں کی وجہ سے صحت کے شعبے کو سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے، ریڈ کراس کی ایک رپورٹ کے مطابق دو ہزار سے زائد صحت کے مراکز بند ہو چکے ہیں۔ 

اسپتالو ں میں دوائیوں کا فقدان ہے اور ڈاکٹرز کو تنخواہیں نہیں مل رہیں۔

 اس کسمپرسی کے حالات میں بھی طالبان اپنے رجعت پسندانہ نظریات پر کار بند ہیں، پہلے میوزک اور سی ڈیز کی دکانوں پر پابندئی لگائی اور اب چینلز پر بھی موسیقی نشر کرنے پر پابندی لگا دی ہے جس کی وجہ سے کئی فنکار ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

بین الاقوامی تنظیموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر یہ بدترین اقتصادی اور سماجی بحرا ن جاری رہتا ہے تو ملک کی بڑی آبادی ابتر حالات سے دوچار ہوجائے گی اور طالبان افغانستان میں اپنا اقتدار برقرارنہ رکھ سکیں گے۔

امریکہ کے مشہور دانشور نوم چومسکی نے تجویز دی ہے کہ امریکہ بات چیت کے ذریعے طالبان کو انسانی حقوق کی پاسداری کیلئے تیار کرے جس سے شاید یہ نتیجہ اخذ کیا جا رہا ہے کہ اگر طالبان کو امداد مل گئی اور انہوں نے موجود اقتصادی اور سماجی تنزلی پر قابو پا لیا توشاید ان کے رجعت پسندانہ نظریات بھی تبدیل ہو جائیں۔

امریکی حکمران طبقے کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ معاشی پابندیوں نے کبھی مسائل کو حل نہیں کیابلکہ ان پابندیوں کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک میں بالعموم اور مسلم ممالک میں بالخصوص اس کے خلاف نفرت بڑھی ۔عمران خان کی حکومت نے بھی یہ اعلان کیا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی ہتھیار ڈال دے تو انہیں عام معافی دی جا سکتی ہے اور ساتھ ہی کہا گیا کہ ٹی ٹی پی نے شمالی وزیر ستان میں 20 اکتوبر تک عارضی جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے اوریہ کہ مذاکرات میں افغان طالبان ثالث کا کردار ادا کررہے ہیں ۔

اس جنگ بندی کے اعلان کے تیسرے دن ہی ٹی ٹی پی نے شمالی وزیر ستان میں حملہ کر کے نہ صرف 4سپاہیوں کو شہید کر دیا بلکہ ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے بیان دیا کہ وہ کسی جنگ بندی کے پابند نہیں ہیں اوریہ کہ وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے جس سے لگتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا اوراور اپنی خارجہ پالیسی کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے برخلاف صرف’’ بھارتی مرکزیت‘‘ پر برقرار رکھنے پر مصر ہیں۔

 تحریک انصاف کی حکومت کو چاہئے کہ پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث کرنے کے بعد ہی افغان خارجہ پالیسی پر عمل در آمد کرے۔پاکستان کے حکمرانوں کے ساتھ ساتھ امریکی حکمرانوں نے بھی اپنی خارجہ پالیسی پاگل پن کی حد تک چین پر مرکوز کی ہوئی ہے جس کیلئے وہ پوری دنیا کا امن تہس نہس کرنے پر تیار ہے۔ہمارے خطے میں امن امریکہ کیلئے اس وقت قابلِ قبول ہوگا جب چین کے ون بیلٹ ون روڈ کی گزرگاہیں ہمارے علاقے سے محدودہو جائیں۔ اس لئےوہ اب پاکستان کے خلاف پابندیوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرے گا۔

افغانستان میں انسانی المیہ کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے عوام کو فوری ریلیف مل سکے۔

یہ ریلیف معاشی ترقی کے بغیر ممکن نہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکہ اور پاکستان ملکر طالبان کو بات چیت کے ذریعے اس بات پر قائل کریں کہ افغانستان میں آئینی جمہوریت قائم ہو جس میں افغانستان کے تمام مکتب فکر کے طبقات کو نمائندگی دی جائے اور ایک آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعے ایسی حکومت بنائی جائے جو خواتین کی آزادی پر لگنے والی پابندیوں کو ختم کرے، آزاد میڈیا کا راستہ ہموار کرے اورانسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی قوانین پر عمل کرے۔ 

ایسا کرنے پر ہی امریکہ نہ صرف 9ارب ڈالر کی رقم منتخب افغان حکومت کو واپس کر ے بلکہ دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کی بھی حوصلہ افزائی کرے جو افغانستان کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے میںمنتخب اور جمہوری افغان حکومت کی مدد کریں۔ 

کچھ اندازوں کے مطابق افغانستان میں بےتحاشہ قدرتی وسائل ہیں جن کی مالیت کا اندازہ ایک ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ لگایا گیا ہے اور ایک منتخب جمہوری حکومت مغربی کمپنیوں کے ساتھ ملکر ان قدرتی وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرے جس سے نہ صرف افغانستان کو ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے بلکہ اس خطے کو ہمیشہ کیلئے دہشت گردی اور رجعت پسندی سے نجات دلوائی جا سکتی ہے۔

تازہ ترین