• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

سندرداس پارک کا پہلا نام پی ایل ایچ پریڈ گرائونڈ تھا، اب اسے زمان پارک کہتے ہیں۔ اس علاقے میں قیامِ پاکستان تک کثیر تعداد میں صاحبِ ثروت ہندو رہائش پذیر تھے،ان کی محل نما کوٹھیاں آج بھی موجود ہیں۔ سندر داس ایک صاحبِ ثروت ہندو تھا، ان تمام محل نما کوٹھیوں میں اس کے رشتے دار رہتے تھے۔ لاہور کے کئی علاقے مثلاً دھرم پورہ، نسبت روڈ، گوالمنڈی، شاہ عالمی دروازہ، مغل پورہ، ماڈل ٹائون، ٹیپ روڈ، ریٹی گن روڈ، ایجرٹن روڈ، کوئینز روڈ، ایڈورڈ روڈ، برڈورڈ روڈ، وارث روڈ، نہرو پارک، کرشن نگر، دیوسماج روڈ، انفنٹری روڈ، اچھرہ اور مزنگ وغیرہ میں خاصی تعداد میں ہندو رہتے تھے جبکہ سکھ زیادہ تر لاہور کے دیہاتی علاقوں میں آباد تھے۔ آج بھی لاہور کے کئی گائوں سکھوں کے نام پر ہیں۔ ہندوئوں کے جانے کے بعدلوگوںنے ان مکانات اور کوٹھیوں پر جائز اور ناجائز ہر طریقے سے قبضہ کر لیا ۔ آج بھی ہمارے ملک میں سیٹلمنٹ کا محکمہ کام کر رہا ہے، کچھ ہندوئوں اور سکھوں کے مکانات لاہور کے13 دروازوں کے اندر بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سندر داس پارک میںکبھی ریوالور کے استعمال کے لئے فائر رینج بھی رہی ہے۔ ویسے تو لاہور میں کئی نشانہ بازی کے میدان (یعنی فائرنگ رینج گرائونڈز) رہے ہیں۔ ہم نے خود بھی نشانہ بازی اور گھڑ سواری کے کئی میدان دیکھے ہیں۔

لاہور میں کینٹ کے علاوہ میسن روڈ کے فوجی قلعے میں بھی ایک فائرنگ رینج ہوا کرتی تھی۔ یہ لال رنگ کا قلعہ ہمارے خالو ایم اے لطیف کی کوٹھی کے بالکل ساتھ بلکہ اس کوٹھی کے لان کی دیوار اس قلعے کے ساتھ تھی یہاں باقاعدہ نشانہ بازی کی پریکٹس ہوا کرتی تھی۔انارکلی بھی کبھی چھائونی تھی اور میوا سکول آف آرٹس (این سی اے) کے بالکل ساتھ پرانی انارکلی اور چرچ روڈ پر 2003ء تک فوجی یونٹ رہی ہے۔ اب یہ جگہ این سی اے کے پاس ہے وہاں انگریزوں کے دور کی بڑی خوبصورت روایتی بیرکیں تھیں، جب تک کینٹ کمرشل علاقہ نہیں ہوا تھا، آرمی کی کئییونٹوں میں نشانہ بازی کی مشق ہوا کرتی تھی۔ سندر داس پارک میں لیفٹیننٹ جنرل واجد علی برکی، جو کہ آنکھوں کے ڈاکٹر تھے، نے یہاں جالندھر سے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر آباد کیا تھا۔ یہ وہی جنرل برکی ہیں جنہوں نے کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کی بنیاد رکھی تھی جہاں سے اب بھی ہر سال بے شمار ڈاکٹرز ایف سی پی ایس،ایف سی پی کی ڈگریاں لیتے ہیں۔ عمران خان، جاوید برکی اور ماجد خان سندرداس پارک (زمان پارک) کے گول گرائونڈ میں ایک مدت تک کرکٹ کی پریکٹس کرتے رہے اور بھی کئی لوگ یہاں کھیلتے رہے ہیں، گرائونڈ میں مستقل طور پر سیمنٹ کی پچ بنی ہوئی ہے۔ جس طرح لاہور کینٹ بورڈ نے میاں میر چھائونی (لاہور کینٹ) کی تمام سڑکوں کے پرانے نام بھی لکھ دیے ہیں، اسی طرح کارپوریشن/ ایل ڈی اے کو بھی چاہئے کہ زمان پارک کے ساتھ اس کے دو قدیم نام سندر داس پارک اور پی ایل ایچ پریڈ گرائونڈ بھی لکھ دیں۔ اس علاقے کی ایک اور خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں جو قدیم کوٹھیاں موجود ہیں۔ ان کا فن تعمیر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ لاہور میں اب صرف دو تین علاقے ہی ایسے رہ گئے ہیں جہاںپرانی کوٹھیاں اپنے اصل تعمیراتی حسن کے ساتھ موجود ہیں۔ ایک ماڈل ٹائون، دوسرا سندر داس پارک (زمان پارک)، میو گارڈن اور جی او آر ون، ڈیوس روڈ وغیرہ۔ کبھی فیروز پور روڈ اور ایمپریس روڈ پر بھی کئی قدیم کوٹھیاں تھیں۔ اگر کسی کو لاہور کے پرانے اصل مکان دیکھنے ہیں تو لاہور کے تیرہ دروازوں، کرشن نگر، نہرو پارک، سنت نگر، دیوسماج روڈ اور شاہی محلہ میں اب بھی موجود ہیں۔

1934ء میں یہاں کئی گھروں کے مرکزی دروازوں پر سندرداس پارک / روڈ لکھا ہوا تھا۔ 1857ء میں اسے پنجاب لائٹ ہائوس پریڈ گرائونڈ کہا جاتا تھا اور یہ کبھی ایچی سن کالج کا حصہ بھی رہا۔ 1947ء میں ایم ای رجمنٹ جس کا یہاں قیام تھا، اس کو ختم کر دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ لاہور کے 1935ء کےنقشے میں ایچی سن کالج کے بیک سائیڈ اور میو گارڈن کے جنوب کے علاقے کو پی ایل ایچ گرائونڈ میں دکھایا گیا ہے۔ یہ بڑا پرسکون علاقہ ہے جہاں صبح کے وقت بھی خاموشی ہوتی ہے۔ یہ شہر کا مہنگا ترین علاقہ ہے۔ شہر میں ہوتے ہوئے بھی کسی کائونٹی کا علاقہ لگتا ہے۔ ایک معروف کرکٹر کا گھر ایچی سن کالج کے بالکل ساتھ تھا، انہوں نے اپنے گھر سے ایچی سن کالج کی گرائونڈ کی طرف ایک چھوٹا سا دروازہ نکالا ہوا تھاوہ اس دروازے سے اکثر وہاں سیر کرنے جاتے تھے جو ایچی سن کالج کے ایک سابق پرنسپل شمیم خاں (ولی خاں کے بھتیجے) نے بند کرا دیا تھا۔ اس پر بڑا جھگڑا ہوا تھا۔ یہ واقعہ شمیم خاں نے ہمیں خود سنایا تھا۔ ایک اہم خبر یہ ہے کہ لاہور کے پہلے اور تاریخی ایئرپورٹ کو اب ختم کرنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں۔ اس کے پانچ پلاٹ 21ارب روپے میں نیلام ہو چکے ہیں۔قائداعظمؒ اس ایئرپورٹ پر 1945ء سے 18دسمبر 1947ء تک گیارہ مرتبہ تشریف لائے تھے۔ وہ ہندوستان کے مختلف شہروں کے ہوائی اڈوں سے یہاں آتے رہے، ہم نے اس ایئرپورٹ کے کبھی تین رن وے بھی دیکھے ہیں۔ آج صرف ایک رن وے رہ گیا، دو رن وے پر کوٹھیاں اور کالونیاں بن چکی ہیں ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے اس تاریخی ایئرپورٹ پرموٹرسائیکل اور پھر موٹرکار بھی چلائی ہے بلکہ کار تو ہم نے 160کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلائی ہے۔

(جاری ہے)

تازہ ترین