• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم کے سخت اقدامات، مری میں انسانی اور ماحولیاتی تباہی ٹل گئی

اسلام آباد (انصار عباسی) مری کو ممکنہ طور پر انسانی اور ماحولیاتی تباہی سے بچانے کی خاطر وزیراعظم کی مداخلت کے بعد پنجاب حکومت نے عمارتوں کی تعمیرات کے حوالے سے نئے قوانین جاری کر دیے ہیں تاکہ ملک کے مقبول ترین ہِل اسٹیشن میں تیزی سے پھیلتی کنکریٹ کے اسٹرکچر کی تعمیرات کو روکا جا سکے۔ 

ملکۂ کوہسار کے نام سے مشہور مری کو بڑے بڑے کنکریٹ کے اسٹرکچر اور کثیر المنزلہ عمارتوں سے خطرہ ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر پنجاب حکومت نے 9؍ اکتوبر 2021ء کو نئے ضمنی قوانین جاری کیے ہیں جن کے تحت صرف ایسی گرائونڈ پلس ٹوُ عمارت کی تعمیرات کی اجازت ہوگی جس کی بلندی 38؍ فٹ ہو، کیونکہ یہ علاقہ زلزلے کے خطرات سے دوچار ہے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ کمشنر راولپنڈی بھی اس آپریشن میں حصہ لیں گے تاکہ غیر مجاز عمارات کی تعمیرات روکی جا سکیں، ان میں ایسی عمارتیں بھی شامل ہیں جو عمارتیں تعمیر کرنے کے قوانین کی خلاف ورزی میں بنائی گئی تھیں یا بنائی گئی ہیں۔ 

مری، کہوٹہ اور کوٹلی ستیاں کی میونسپل کمیٹیوں نے ان قوانین کی منظوری دیدی ہے اور تمام متعلقہ حکام اور عہدیداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان قوانین پر سختی سے عمل کرائیں اور ایسی کثیر المنزلہ کنکریٹ کی عمارتوں کی تعمیرات رکوائیں جو تیزی سے ہل اسٹیشن کے ایکٹیو سائیسمک زون (زلزلے کے خطرات سے دوچار علاقہ) پر تعمیر ہو رہی ہیں۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان قوانین میں خصوصی طور پر جنگلی حیات، قدرتی حسن، جنگلات اور خطے میں موجود قدیم درختوں کے تحفظ کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اقدام وزیراعظم کے سیاحت کے بچائو، اس کے فروغ، آمدنی کے حصول اور حساس مقامات پر محفوظ تعمیرات کے ویژن کا ہی حصہ ہے۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ نئے قوانین کاغان میں تعمیرات کے قوانین کی طرز پر ہی بنائے گئے ہیں۔ کاغان کے قوانین بھی وزیراعظم کی ہدایت پر بنائے گئے تھے۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ جیسے ہی اسی طرح کے قوانین گلیات (خیبر پختونخوا) اور ممکنہ طور پر آزاد جموں و کشمیر کی حکومتوں کی جانب سے بھی نافذ کیے جائیں گے، توقع ہے کہ خطے میں کنکریٹ کی بڑھتی عمارتوں کی تعمیرات رُک جائیں گی۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ مستقبل قریب میں پیر پنجال کشمیر اور ہمالیہ کے دیگر علاقوں میں پرانی طرز کی لکڑی کی شاندار عمارتیں دوبارہ تعمیر ہونا شروع ہو جائیں گی۔ لکڑی سے بنی تعمیرات کی بحالی سے سے مقامی سطح پر ایسے علاقوں میں تجارتی بنیادوں پر جنگلات اگانے کا کاروبار پھیلے گا جہاں اس کی اجازت ہوگی۔ 

نئے قوانین کے تحت کسی بھی نئی تعمیرات یا پرانی تعمیرات میں تبدیلی کیلئے میونسپل کمیٹی کا اجازت نامہ ضروری ہوگا اور اس کیلئ پہلے منصوبہ جمع کرانا ہوگا اور ساتھ ہی ضروری دستاویزات اور اسناد بھی۔ 

تعمیرات کا خواہش مند فریق اپنے اپنے متعلقہ علاقے کے ماہرین کی خدمات حاصل کرے گا۔ ان تمام کاموں کی نگرانی کیلئے میونسپل کمیٹی پلان اپروول کمیٹی تشکیل دے گی۔ 

ان قوانین کے تحت بلڈر اس بات کا پابند ہوگا کہ وہ عمارتوں میں تمام اطراف سے لازمی خالی جگہ چھوڑے گا (سامنے، پیچھے اور اطراف)۔ 

تمام عمارتوں میں ہر طرح کے افراد کیلئے ریمپ کی تعمیر، وینٹی لیشن، کھڑکیاں، دروازے (جیسا کہ قوانین میں درج ہیں)، اخراج اور ایمرجنسی کیلئے راستے تعمیر کرنا ہوں گے۔ 

ان قوانین میں پاکستان کے ماحولیاتی قوانین کا بھی خاص ذکر کیا گیا ہے تاکہ عمارتوں میں ضروری چیزیں جیسا کہ چمنی، اینٹینا ٹاور، ایئر کنڈیشننگ اور دیگر ڈکٹ سسٹم موجود ہوں۔ عمارتوں میں فضلہ اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کیلئے موثر گاربیج ڈسپوزل اور سیوریج سسٹم ہونا چاہئے تاکہ عوامی مقامات پر گند کچرہ نہ پھیلے۔ 

نئے قوانین میں نہ صرف مقامی افراد بلکہ سیاحوں کیلئے پارکنگ کا نظام بھی شامل رکھا گیا ہے۔ کمرشل اور رہائشی عمارتوں میں لازمی طور پر پلان اپروول کمیٹی کی منظور کردہ رپورٹ کے مطابق پارکنگ کیلئے مناسب جگہ ہونا چاہئے تاکہ ہر ایک کیلئے پارکنگ کا مسئلہ حل کیاجا سکے۔ 

نئے قوانین کے تحت بلڈر عمارت کے باہر خطرے کے نشانات اور علامات نمایاں طور پر نصب کرے گا۔ تحصیل مری میں پانی کی سپلائی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ نئے قوانین میں یہ مسئلہ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے نظام کی تشکیل سے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پانچ مرلے کے ہر گھر میں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا نظام ہونا چاہئے۔ 

موجودہ ہریالی اور جنگلات کے حوالے سے نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ درختوں کو صرف میونسپل کمیٹی کی اجازت سے کاٹا جائے گا لیکن بلڈنگ پلان صرف نئے درخت لگانے کی صورت میں ہی منظور کیا جائے گا۔ 

کسی بھی درخت کو کاٹنے کی صورت میں اس کی جگہ پانچ سے دس نئے درخت لگانا ہوں گے جبکہ ایسے درخت جو بیس سال پرانے ہوں انہیں کاٹنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ 

سڑکوں، ریل کے نیٹ ورکس، پُلوں، جنگلی حیات کیلئے گزر گاہوں جیسے انفرا اسٹرکچر کی تعمیرات لازمی ہوگی جس سے جنگلی حیات کو انسان کی بنائی ہوئی رکاوٹیں عبور کرنے میں ا ٓسانی ہوگی۔

تازہ ترین