اس ہفتے ایک سوال نے مجھے بہت ستایا ۔ منگل کی صبح خاص طور پر میں اس سوال کے انگاروں پر لوٹتا رہا ۔ سوال یہ ہے : طالبان نے ڈیرہ اسماعیل خاں کی جیل پر حملہ کیا اور ملک کے بارہویں صدر کے انتخاب کے لئے ووٹ ڈالے گئے تو ان دونوں میں زیادہ بڑی اور اہم خبر کونسی تھی ؟ ظاہر ہے کہ یہ کوئی ایسا سوال نہیں ہے جوکسی کوئز شو میں پوچھا جائے ۔ یوں بھی تمام پاکستانیوں کے علم اور ان کی معلومات کا دائرہ اتنا وسیع نہیں کہ وہ آسان سوالوں کے جواب بھی دے سکیں ۔ پھر یہ کوئی ایسا سوال بھی نہیں جس کا درست جواب کہیں لکھا رکھا ہو ۔ میرے لئے یہ سوال اس لئے اہم تھا کہ میں نے ایک طویل عمر صحافت میں گزاری ہے ۔ واسطہ یقیناً اخبارات سے رہا ہے ۔ اس کرب سے بھی شناسائی ہے کہ صبح کس خبر کوسب سے بڑی سرخی بنایا جائے ۔ اکثر تو یہ صحافیانہ دانش کا ذاتی مظاہرہ ہوتا ہے ۔ آپ دیکھتے ہیں ۔ مختلف اخبارات کی شہ سرخیاں مختلف ہوسکتی ہیں لیکن جب کوئی بڑی خبر آتی ہے تو وہ جیسے خود بخود ملک کی اور کئی صورتوں میں پوری دنیا کی سب سے بڑی سرخی بن جاتی ہے ۔ توکیا ڈیرہ اسماعیل خاں کی جیل پر حملہ ہماری ملک کی سب سے بڑی خبر نہیں تھی ؟ میرا مطلب یہ ہے کہ کوئی یہ تو دیکھے کہ یہ حملہ کس نوعیت کا تھا ۔ یہ کیسے کیاگیا ، اس کا پیغام ہماری ریاست کے لئے اور ہمارے لیے کیا تھا ۔ اس حملے کی کھڑکی سے جو منظر ہمیں دکھائی دے رہا ہے وہ کیا ہے ۔ غرض پوری خبر کودیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ سوچنا ہے کہ صحافت کاعلم اور اس کے تقاضے کیا کہتے ہیں ۔ مدیرانہ تدبر کا فیصلہ کیا ہونا چاہیے ۔
اب آئیے یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے میڈیا نے ان دو خبروں کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔ صدر کے انتخاب کی اہمیت میں کوئی شک نہیں ۔ یہ سارا عمل ، سیاسی کشمکش اور واقعات سے عبارت تھا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ اور عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے روئیے پر اس کے اعتراضات نے سرخیوں کا ایک انبار لگادیا ۔ جہاں تک پاکستانی تحریک انصاف کا تعلق ہے تواس کے تذبذب کوہی ہم خبر انگیز کہہ سکتے ہیں ۔ بہرحال ، پیر کی شام تک بساط بچھ چکی تھی اور منگل کی رائے شماری کی نتائج واضح ہوچکے تھے ۔ یہ جاننے کے لئے کہ ممنون حسین بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہوجائیں گے کسی جوتشی یا سیاسی مبصر سے رجوع کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی تھی ۔ ہاں ، کسی نہ کسی سرپرائز کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے ۔ اتفاق سے جو سرپرائز ہمیں ملا اس کا تعلق صدارتی انتخاب یا انتخابی سیاست سے بالکل نہیں تھا ۔ پیر کی رات ، نصف شب سے ذرا دیر پہلے ، ڈیرہ اسماعیل خاں میں کئے جانے والے دھماکوں کی دھمک میڈیا نے سن لی ۔ ایک انتہائی ڈرامائی اور ہوش وحواس اڑا دینے والی کہانی کا آغاز ہوا ۔ سلگتے ہوئے کئی سوالوں کا الاوٴ بھڑک اٹھا ۔ صبح کے اخبارات کی ڈیڈ لائن سے پہلے ہی صورت حال واضح ہوچکی تھی ۔ یعنی منگل کی صبح آپ نے ۔ میرا مطلب ہے آپ میں سے ان گنے چنے لوگوں نے جو اخبار پڑھنے کی تکلیف گوارا کرلیتے ہیں۔ یہ پڑھ لی کہ ڈی ، آئی خاں سینڑل جیل پر دہشت گردوں نے حملہ کیا اور کئی قیدی فرار ہوگئے ۔ ظاہر ہے ، پوری تفصیلات موجود نہیں تھیں ۔ تب بھی ایک بڑی جیل پر دہشت گردوں کا حملہ ۔ قیدیوں کا فرار ہوجانا ۔ ایک عسکری نوعیت کی کارروائی اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی پسپائی ۔ یہ خبر اخبارات کی سب سے بڑی سرخی نہیں بنی ۔ کئی اخبارات میں یہ دوسری یا تیسری سرخی بھی نہیں تھی ۔ ایک بڑے اخبار میں تو یہ پانچویں بڑی سرخی تھی ” کالمی “۔
بہرحال ۔ منگل کی صبح تک تواس واقعہ کی سنگینی سے سب واقف ہوچکے تھے ۔ لیکن ہمارے ٹیلی وژن نے منگل کے دن تقریباً ” سہ پہر تک ، اپنی ساری توجہ صدارتی انتخاب پر مرکوز رکھی ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ طالبان کے ایک دلیرانہ اور منظم حملے کی خبر کو سنسر کردیا گیا ۔ خبر ضرور سنائی گئی ۔ بعد میں تو چیختی دھاڑتی رنگ برنگی سرخیوں کا ایک سلسلہ بھی چلا ۔ لیکن میں یہ فیصلہ نہ کرسکا کہ ہمارے میڈیا کے لئے ، دونوں میں کونسی خبر زیادہ بڑی تھی ، یہ سوال میں نے محض طالبان کے ایک بڑے حملے کی کامیابی اور اس کے مضمرات کواپنا موضوع بنانے کے لئے اٹھایا ہے ۔ خبر کیا ہوتی ہے اور ہمارے میڈیا کی ترجیحات کیا دکھائی دیتی ہیں یہ الگ موضوع ہے ۔ اس وقت صرف یہ کہوں گا کہ ہم سیاست کے ایسے دھنی ہیں کہ خبر کی پہچان بھی ہمارے لئے مشکل ہوگئی ہے وہی چند سیاست داں ٹیلی وژن پر اپنی سبھا سجاتے ہیں اور بیانات واقعات سے زیادہ اہم سمجھے جاتے ہیں ۔ میں کئی بار یہ کہہ چکا ہوں کہ سیاست سے زیادہ ہمیں اپنے معاشرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ معاشرہ کیسا ہے اور اس میں کس قسم کی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ان کا تعلق ہماری قومی سلامتی اور ہماری بقاء سے ہے ۔ جو وحشتیں ہمارے معاشرے اور ہمارے عوام کے ذہنوں میں پل رہی ہیں ان کا مظاہرہ ہم صبح شام دیکھتے رہتے ہیں ۔ تشدد اور فکر کی تضاد اور انتشار نے ہمیں ، اجتماعی معنوں میں ، ذہنی مریض بنادیا ہے ۔اب آئیے اور ڈیرہ اسماعیل خاں کی جیل پر حملے کو غور سے دیکھئے ۔ ہمیں بتایا گیا کہ طالبان تقریباً ڈھائی سو قیدی چھڑا کر لے گئے ۔ وہ ایک لشکر کی صورت میں آئے ۔ کسی نے انہیں نہیں روکا ۔ وہ اپنے قیدیوں کو چھڑا کرلے گئے ۔ کسی نے انہیں نہیں روکا ۔ وہ اپنے محفوظ ٹھکانوں میں واپس چلے گئے اور کسی نے انہیں وہاں پہنچ کرگرفتار نہیں کیا ۔ اگر آپ ان باتوں سے حیران ہیں تو یہ بھی دیکھئے کہ اس حملے کی پیشگی اطلاع انٹیلی جینس کے اداروں نے حکام کوپہلے ہی دے دی تھی ۔ ایک دن پہلے جیل میں ہنگامہ بھی ہوا تھا ۔ لگتا ہے کہ مخصوص علاقوں میں ریاست کی علمداری کانام ونشاں تک نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اتنا خوفناک ، ناقابل یقین حملہ پہلی بار ہوا ہے ۔ 15اپریل2012کو دہشت گردوں نے بنوں جیل پرحملہ کیا اور تقریباً چار سو قیدی فرار ہوگئے جن میں انتہا پسند بھی شامل تھے ۔ ان میں سے ایک فضائیہ کا سابق افسر عدنان رشید بھی تھا جسے سابق صدر پرویز مشرف پر قاتلانہ حملے کے جرم میں موت کی سزا سنائی جاچکی تھی ۔ چند روز پہلے یہ نام خبروں میں ملالہ یوسف زئی کولکھے گئے ایک خط کے حوالے سے بھی آیا ۔ اب یہ بتایا گیا ہے کہ عدنان رشید ہی نے ڈیرہ اسماعیل خاں جیل پر حملے کی منصوبہ بندی کی ۔
میں نے یہ کہا کہ اتنی بڑی واردات بھی ہماری زندگی کوہلا کررکھ دینے کاسبب نہ بن سکی ۔ یہ ہمارے میڈیا کی سب سے بڑی سرخی بھی نہ بن پائی ۔ بدھ کے اخبارات کی شہ سرخی بھی یہی تھی کہ ممنون حسین 432ووٹ لے کر ملک کے 12ویں صدر منتخب ہوگئے اور جسٹس وجیہہ کوشکست ہوئی ۔ سیاست زندہ باد ۔ شاید ہم اس لئے بھی بے حس ہوگئے ہیں کہ لگاتار زخم کھاتے ہیں اور جئے چلے جاتے ہیں ۔ خود کش دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات تواتر سے ہورہے ہیں ۔ پرتشدد جرائم بھی یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ریاستی ادارے پسپائی کاشکار ہیں ۔ ہم بے یقینی اور خوف کی سلطنت میں رہتے ہیں اور اس سوال سے نظریں بچانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا پاکستان ایک ناکام ریاست ہے ۔ جب کوئی غیر ملکی تھنک ٹیک یا مبصر اس امکان کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست ہے توہم اسے کسی بین الاقوامی سازش کا ایک حصہ سمجھتے ہیں ۔ شاید ہم ناکام ریاست نہیں ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو اس کے ثبوت ہمارے پاس کیا ہیں ؟ ہم صدارتی انتخاب کی مثال دے کر یہ کہہ سکتے ہے کہ دیکھو ، ہماری جمہوریت اپنی پٹری پر چل رہی ہے ۔ ایک منتخب صدر اپنی آئینی مدت پوری کرکے قصر صدارت دوسرے منتخب صدر کے حوالے کررہا ہے ۔ اگلے ماہ منعقد ہونے والی تقریب کی شان وشوکت اور دبدبے کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ مثلاً اسلام آباد کی عالیشان عمارتیں ایک مستحکم اور بااختیار حکومت کی علامت سمجھی جاسکتی ہیں ۔ دنیا میں کتنے ایسے ملک ہیں جن کے صدر اور وزیر اعظم اتنے بڑے اور بارعب گھروں میں رہتے ہیں ۔ وہ جسے ہم ریڈزون کہتے ہیں کتنا محفوظ ہے ۔ اقتدار کے ایوانوں کی دیواریں کتنی مضبوط اور کتنی اونچی ہیں ۔ اب اگر آپ یہ کہیں کہ عبادت گاہیں ، جیل خانے اور لڑکیوں کے اسکول اتنے محفوظ کیوں نہیں ہیں تو اس کاجواب میرے پاس نہیں ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ یہ توہماری اپنی خطا ہے کہ ہم وہ کچھ برداشت کرلیتے ہیں جو ناقابل برداشت ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی اس بے بسی پر پردہ ڈالنے کے لئے سیاست سے خود کوبہلاتے رہتے ہیں اب دیکھئے کہ کیسے کیسے زلزلہ خیز مسائل ٹاک شوز کے دستر خوان پر سجے ہیں ۔ فخر الدین جی ابراہیم نے استعفی دے دیا ہے ۔ عمران خاں پر توہین عدالت کا الزام ہے ۔ انرجی پالیسی کااعلان ہوا ہے ان سب سے بڑھ کر امریکی وزیر خارجہ پاکستان آئے اور دہشت گردی ، افغانستان اور امریکہ سے تعلقات پر مذاکرات ہوئے ۔ ڈیرہ اسماعیل خاں کی جیل تو یوں بھی بڑی شاہراہوں سے بہت دور کھڑی ہے بس ذرا سی ٹوٹ گئی ہے ۔