• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مغرب، مسلم دُنیا میں خونریزی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ بشمول پاکستان کی سرحدوں کی تبدیلی کا پلان جس کو کرنل پیٹر رالف منصوبہ بھی کہا جاتا ہے، پورے خطے میں روبہ عمل ہے، شام میں خانہ جنگی ہے تو مصر میں فوج نے امریکی ایماء پر جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا ہے، دو سو سے زائد مظاہرین شہید کردیئے ہیں، شام میں اب تک 94 ہزار شہری لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ عراق بم دھماکوں کی زد میں ہے، فلسطین ایک بڑے جیل خانہ میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے، وہاں مذاکرات کرائے جارہے ہیں تاکہ اسرائیل کو دوام ملے۔ حیرت انگیز طور پر بعض عرب ممالک اِن معاملات کو نہیں سمجھ رہے ہیں کہ یہ سارا منصوبہ اُن کیخلاف ہے اس کا مقصد عراق، لبنان، شام، مصر کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا ہے، ایران اور پاکستان کو چھوٹے چھوٹے سے ملک میں تبدیل کرنے کیلئے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کیا جارہا ہے، پاکستان میں جس طرح کا عدم استحکام چل رہا ہے اس نے حکومت کی حاکمیت معدوم کردی ہے، جس کی بدترین مثال ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل سے 248 قیدیوں کو چھڑا کر لے جانے کا واقعہ ہے، جس پر طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ایک کروڑ روپے خرچ کئے۔ اِس طرح سے کراچی میں دو واقعات ایسے ہوئے کہ قیدیوں کو فرار ہونے دیا گیا جس سے پولیس اور دیگر اداروں میں بددلی، کمان اینڈ کنٹرول نظام کا ٹوٹنا اور پیسے کے لالچ نے ملک میں ریاستی حاکمیت کی عدم موجودگی کے تاثر کو ابھارا ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے صوبوں پر امن وامان بحال کرنے کی ذمہ داری لگا دی ہے جن کو سرے سے اِس کا تجربہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ ذہنی طور سے اس کیلئے تیار ہیں۔
اس لئے وہ کوئی تادیبی کارروائی اور اپنی جان پر کھیلنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر ہم ڈیرہ اسماعیل خاں کی جیل کے واقعے کو ایک مثال بنا کر دیکھیں تو وہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے جو حکمرانی کے معاملے میں ناتجربہ کار صحیح مگر وہ اپنے آپ کو امن وامان کی بحالی کے لئے ذمہ دار بھی نہیں سمجھتی۔ حکومت خیبرپختونخوا کو بتا دیا گیا تھا کہ کسی جیل پر حملہ ہونے والا ہے اور وہاں سے قیدی چھڑا لئے جائیں گے مگر اس کے باوجود ڈیرہ اسماعیل خان جیل کی حفاظت کا انتظام نہیں کیا گیا اور اِس بڑی تعداد میں قیدی رہا ہوگئے اور گاڑیوں میں ایسے سوار ہو کر چلے گئے جیسے مہمان ہوں اور تواضح کے بعد رخصت ہورہے ہوں۔ اس کے بعد اگر تحریک طالبان پاکستان حملے بند نہیں کرتی تو پھر حملوں میں شدت آئے گی۔ اگر کراچی کے معاملے کو لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ قیدیوں کو فرار کا اس وقت موقع ملا جب سپریم کورٹ نے اندھادھند ترقیوں کو روکنے کا حکم واپس لینے کا فیصلہ دیا۔ اس میں وہ افسران بھی زد میں آئے جو جان پر کھیل کر ان قیدیوں کو گرفتار کرتے رہے تھے پھر وہ بددل ہوئے تو دہشت گرد فرار ہوگئے یا یہاں بھی رشوت کا بازار گرم رہا۔ تیسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حکومت پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان، امریکا کے افغانستان سے نکلنے کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں، اس نے کچھ غلط فہمیاں دور کردی ہوں اور تحریک طالبان پاکستان کا پاکستان پر حملوں کا جواز باقی نہ رہا ہو اور وہ پاکستان کے ساتھ امن چاہتے ہوں مگر یہ ابھی دیکھنے کی بات ہے تاہم اس سے پاکستان غیرمستحکم اور پاکستان کی حاکمیت کے کمزور ہونے کا عندیہ ملتا ہے، جو امریکا کے عین مفاد میں ہے اور یہی وہ چاہتا ہے اگرچہ امریکی چیئرمین چیف آف جوائنٹ اسٹاف کمیٹی جنرل میٹس ڈیمسی نے کانگریس کی کمیٹی میں اپنے تحریری بیان میں پاکستان کے استحکام کی ضرورت کو محسوس کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر پاکستان عدم استحکام کا شکار ہوگا تو پورا خطہ غیرمستحکم ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ اُن کو پاکستان سے ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاوٴ کا خطرہ لاحق ہے اس لئے وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا چاہتے ہیں مگر جب امریکا کے عظیم تر منصوبے کو دیکھتے ہیں تو اس میں پاکستان کو عدم استحکام کا شکار رکھنا اُن کی حتمی ضرورت نظر آتی ہے۔ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں مسلم کشی کے کسی منصوبے کو روکنے کی پوزیشن میں نہ آجائے اور یہ کہ وہ ایک مضبوط ملک بن کر ابھرے اور ایٹمی قوت ہونے کے حوالے سے اپنا دائرہ اثر قائم کرنے کی کوشش کرے۔ اصولاً سارے عرب ممالک بشمول ایران پاکستان کے دائرہ اثر کا حصہ ہونا چاہئے کیونکہ یہاں ہماری پذیرائی ہے۔ ایران پر حملہ، شام میں امریکی مداخلت اور عراق میں خودکش حملوں کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ جہاں تک کردستان کی بات ہے یہ ممالک خود مل کر فیصلہ کریں کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ امریکا کو چاہئے کہ پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت سے اب گریز کرے، وہ حد سے بڑھنے والوں میں سے ہوگیا ہے۔ افغانستان میں وہ اپنا حشر دیکھ چکا ہے جہاں اُس کی شہنشاہیت کا بھرم ٹوٹ گیا ہے۔ امریکا مسلمانوں کے خلاف خونریزی سے باز آئے اور اگر اپنی ختم ہونے والی سلطنت کے لئے ایک دشمن چاہئے تو اسے کسی اور دشمن کو تلاش کرنا چاہئے اور مسلمانوں سے دشمنی کی بجائے دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہئے جو امریکا، پاکستان اور مسلمانوں کے مفاد میں ہے۔
تازہ ترین