کچے کے علاقے کے دشوار گزار راستوں کی وجہ سے پولیس کو ڈاکوؤں کی مکمل بیخ کنی میں ناکامی ہوتی رہی ہے اور اسے بھاری جانی نقصان کا بھی سامنا رہا۔ کچے کے علاقے میں کئی عشرے تک ڈاکو راج قائم رہا، اس کی وجہ سرکش دریا اور کچے کے دشوار گزار راستے تھے۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور معیشت کی مضبوطی میں سڑکیں اور پل اہم کردار ادا کرتے ہیں جب کہ دورافتادہ اورناقابل رسائی علاقوں میں یہ امن و امان قائم رکھنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
ان کی تعمیر سے ڈاکوئوں و جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع ہوتا ہے۔ اس کی مثال دادو ،مورو پل، لاڑکانہ ،خیرپور پل ، قاضی احمد کے ساتھ آمری پل سمیت متعدد کچے کے علاقے ایسے ہیں جہاں پلوں اور سڑکوں کی تعمیر کے بعد لوگوں کوکافی سکون نصیب ہوا۔ جن علاقوں میں سورج ڈھلنے کے بعد سفر ناممکن اور دن کے وقت بھی خطرے سے خالی نہیں تھا اب وہاں رات میں بھی لوگ سفر کرتے ہیں ۔لیکن اس وقت سندھ کا سب سے خطرناک کچے کا’’ٹرائنگل ‘‘یعنی دریائی علاقہ ہے جو ایک جزیرے کی صورت میں ہے اور اس کا حب کشمور ہے۔
اس ٹرائنگل میں کشمور ، شکارپور ، سکھر، گھوٹکی سمیت سندھ کے چار اضلاع آتے ہیں ۔کشمور اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے بھی انتہائی حساس علاقہ شمار ہوتا ہے کیوں کہ اس کے ساتھ پنجاب اور بلوچستان کی سرحدیں لگتی ہیں۔ رحیم یار خان ، راجن پور ، کشمور، شکارپور سے کچے کا علاقہ سکھر، گھوٹکی تک جاتا ہے ۔
کشمور کا کچے کا علاقہ درانی مہر اور شکارپور کا علاقہ گڑھی تیغو اور اس کے بعد سکھر، گھوٹکی کا شاہ بیلو ہے۔درانی مہر اور گڑھی تیغو میں کچھ عرصے قبل تک ڈاکو راج قائم تھا جہاں سندھ سمیت پورے ملک سے اغوا کرکے مغویوں کو رکھا جاتا تھا ۔ یہ علاقہ اغوا برائے تاوان کی انڈسٹری بن چکا تھا۔
ڈاکو اکثر کچے کے ان علاقوں سے جدید ہتھیاروں کے ساتھ اپنی وڈیو بناکر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے تھے۔ ایس ایس پی سطح کے افسران کو دھمکیاں دی جاتی تھیں آپریشن کے لئے جانے والی پولیس پارٹیوں پر حملے اور افسران و جوانوں کو شہید اور یرغمال بنایا جاتا تھا۔
اس تمام تر صورتحال کے بعد حکومت نے بھی سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ سال سینئر پولیس افسرامجد احمد شیخ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوںنے کشمور میں امن و امان کے قیام کے ساتھ کندھکوٹ گھوٹکی برج کی تعمیر کے لئے آپریشن کیا اور علاقہ کلئیر کروا کر نومبر 2020 میں اس پل کی تعمیر کا کام شروع کرایا جو دن رات جاری ہے۔
دوسری جانب اینٹی ڈکیت آپریشن کے ماہر تنویر حسین تنیو کو شکارپور آپریشن کمانڈر تعینات کیا گیا۔ تنویر حسین تنیو کو سندھ کے خطرناک اشتہاری ڈاکوؤں کوکیفر کردار تک پہنچانے کا اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے جھنگل تیغانی، جان محمد تیغانی ، جھرکی تیغانی سمیت متعدد ڈاکوئوں کو ہلاک اور زخمی کیا۔ اب ایس ایس پی شکارپور اور ایس ایس پی کشمور نے اپنے کیمپ کچے کے علاقے میں قائم کررکھے ہیں، جہاں ڈی آئی جی مظہر نواز شیخ بھی ہفتے میں دو یا تین مرتبہ آتےہیں۔
ان دونوں اضلاع میں جہاں آج پولیس اہل کار چوکیوں میں موجود ہیں وہاں کبھی پولیس کے لیے جانا ممکن نہیں تھا۔ڈی آئی جی، مظہر نواز شیخ جنہوں نے پاکستان پولیس سروس میں 1999 میں اے ایس پی کا عہدہ سنبھالا تھا، اس وقت ڈی آئی جی لاڑکانہ ہیں اور کشمور شکارپور اضلاع میں ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کی کمانڈ کررہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ ائیرکنڈیشنڈ آفس میں بیٹھ کر ٹیلی فون پر کچے میں آپریشن کی مانیٹرنگ کرنے کی بجائے اپنے سپاہیوں کے ساتھ موجود رہ کراس کی کمانڈ کرتے ہیں۔ ڈی آئی جی کے مطابق گزشتہ چند ماہ میں پولیس نے کشمور اور شکارپور میں جاری آپریشن میں اشتہاری ڈاکو ؤںسمیت بے شمار جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کرکے کئی کروڑ مالیت کا سامان جن میں گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، موبائل فون، مویشی اور بھاری اسلحہ شامل ہے ،برآمد کرکے اصل مالکان کے حوالے کیا۔ڈی آئی جی کے مطابق ان دنوں کچے کاعلاقہ زیر آب ہے لیکن ڈاکوئوں کو فرارکا موقع نہیں دیں گے۔
ایس ایس پی امجد احمد شیخ نے نمائندہ جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ درانی مہر جو خطرناک علاقہ تھا اور ڈاکوئوں نے وہاں اپنی کمین گاہیں بنا کراسے نو گو ایریا بنادیا تھا ، پولیس نے اسے خالی کروا کر وہاںاپنی چوکیاں قائم کرلی ہیں۔ دریا کے اوپر 30 کلومیٹر طویل ،کندھ کوٹ، گھوٹکی پل ڈاکوؤں کا قلع قمع میں معاون ثابت ہوگا۔ اس کی تعمیر کا کام 2023 میں مکمل ہوجائے گا۔
اس کا کریڈٹ سابق آئی جی سندھ ،اے ڈی خواجہ کو جاتا ہے جنہوں نے اپنی تعیناتی کےدوران اس پل کی پی سی ون بنوالی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ درانی مہر کچے میں ڈاکوؤں سے 118 مقابلے ہوئے ہیں جن میں اشتہاری ملزمان سمیت 15 بدنام ڈاکو ہلاک 75 زخمی اور 336 ڈاکوؤں کو گرفتار کیاگیا۔ پولیس کارروائی میں ڈاکوؤں کے قبضے سے بھاری تعداد میں اسلحہ برآمد ہوا جن میں اینٹی ائیر کرافٹ گنز، راکٹ لانچرز، گولوں کے ساتھ اسنائپر رائفلیں ، تین کلو بارودی مواد، بڑی تعداد میں کلاشنکوف، شاٹ گن، رائفل، پسٹل، سیکڑوں راؤنڈز برآمد کئے گئے۔
اس وقت دریائی علاقے میں پانی چڑھنےکے باوجود پولیس اپنے مورچوں میں موجود ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شکارپور اور کشمور کے کچے کے جنگلات جیسا آپریشن شاہ بیلو خاص طور پر ضلع گھوٹکی میں نہیں ہوا، اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ گھوٹکی پولیس کے افسران اور ڈی آئی جی سکھر کو اس حوالے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہےاور ایس ایس پی سکھر نے شکارپور اور سکھر شاہ بیلو کے راستے کو سیل کر رکھا ہےلیکن کشمور کے ڈاکوئوں کے لئے گھوٹکی کا دریائی راستہ کھلا ہواہے۔
جب کشمور پولیس ڈاکوؤں کے گرد گھیراتنگ کرتی ہے تو وہ کشتیوں میں بیٹھ کر فرار ہوجاتے ہیں۔ ایس ایس پی کشمور کے مطابق آئی جی سندھ کو سمری بھیجی گئی ہے۔ جدید اسلحہ اور بلٹ پروف کشتیاںو دیگر آپریشنل سامان ملنے کے بعد پولیس کچے کے دریائی حصے میں پیڑولنگ کرکے ڈاکوئوں کے فرار کا یہ راستہ بھی مسدود کردے گی۔