• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میانوالی میں عشرہ ِرحمت اللعالمینﷺ کی تقریبات میں شرکت کےلئے آیا تھا۔ سیرت النبیؐ کانفرنس اور نعتیہ محفل مشاعرہ میں شرکت کی۔ ماضی کی یادیں تازہ ہوئیں،میانوالی کے سرخیل شاعر، نوائے شرر کے چیف ایڈیٹر رانا امجد کے والد شرر صہبائی یاد آئے۔ ایک زمانے میں عید میلاد کے موقع پر نعتیہ مشاعرے کا اہتمام وہی کیا کرتے تھے۔ آج کل یہ کام اظہر نیازی اوراختر مجاز کرتے ہیں۔شاعری کے شرر صہبائی میدان ِ صحافت کے بھی شہسوار تھے۔ ان دنوں میانوالی کی سلطنت ِ صحافت پر میرے چچازاد بھائی شیر بہادر چغتائی اورشرر صہبائی کی ہی حکومت تھی۔ دونوں اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے کئی بار جیل گئے تھے۔ ایک زمانے میں صحافیوں کے لئے جیل جانا باعث ِ عزت ہوا کرتا تھا۔ اہل قلم کے نظریات ہوتے ہیں۔ سچ لکھنے کی قیمت ادا کرنا پڑتی تھی۔ قلم کی قوت سے حکومتیں بدلنے کی باتیں اور کوششیں ہوتی تھیں۔ شاعر کہتے ہیں :

قلم جو کھیل سکتا ہے شہنشاہوں کے تاجوں سے

جفا کی آمریت سے، ستم کے سامراجوں سے

قلم پامال کر سکتا ہے شان ِ کجکلاہی کو

ہلا سکتا ہے اپنی جنبشوں سے تختِ شاہی کو

ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹواورجنرل ضیا کے دور میں اہل قلم نے بڑی بڑی مشکلیں برداشت کیں مگررفتہ رفتہ بہتری کی طرف آتے چلے گئے۔ بے شک لکھنے والوں کی عزت میں اضافہ ہوا، مالی حیثیت مستحکم ہوئی مگر انفارمیشن کے اژدھام کی وجہ سے جھوٹ اور سچ میں حد ِ فاصل کم ہوتی گئی۔ الجھائو زیادہ ہوتا گیا۔ اپنے اپنے سچ اور جھوٹ بننے لگے۔ اس طرف دھیان کم ہوا جس نے قلم اور قلم جو کچھ لکھتا ہے اس کی قسم کھائی تھی۔ میں میانوالی اسی کے پیغمبر آخریںؐ کی سیرت کانفرنس میں بھی شرکت کےلئے گیا تھا۔ سیرت النبیؐ کانفرنس میں میانوالی کے ایم این اے امجد خان، بلدیات کے پارلیمانی سیکرٹری احمد خان بھچر، میانوالی کے ڈی پی اومستنصر فیروز اور اے سی میانوالی اسد عباس شیرازی کے علاوہ علمائے کرام نےبھی تقاریر کیں، میں نے بھی سیرت پراپنی کتاب ’’چارہ ساز بیکساں ‘‘ کے چند صفحات پڑھ کر سنائے۔

اس کے بعد خٹک بیلٹ جانے کا اتفاق ہوا۔یہ میانوالی کا وہ پسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں پشتو زبان بولی جاتی ہے مگر اب اس کے رنگ ڈھنگ کچھ اور تھے۔ ویسے تو عمران خان دو مرتبہ پہلے بھی اس علاقے سے ایم این اے منتخب ہوئے مگر یہ اب وزیر اعظم کا حلقہ ہے۔صدیوں سے اس علاقے کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں تھا۔اب چاپری ڈیم کی تعمیر شروع ہونے سے اگلے سال خٹک بیلٹ کے ہر گھر کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہوگا۔اس کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکو مت خٹک بیلٹ میں سٹرکوں کی تعمیر اور صحت و تعلیم کی سہولیات کی فراہمی پر اربوں روپے کی خطیر رقم صرف کر رہی ہے۔

خٹک بیلٹ کا سارا علاقہ تقریباً پہاڑی ہے۔ سانپ جیسی بل کھاتی ہوئی سڑکیں کالاباغ سے چاپری نکلتے ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ اس سڑک پر کچھ پُر فضا مقامات بھی آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہاں درجہ ِ حرارت بہت کم ہوتا ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ ’زچہ بچہ ‘‘ تھا۔نئے ڈپٹی کمشنر خرم شہزاد نے اس کےلئے اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والاایک پروجیکٹ شروع کرایا ہے جسے علاقے میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ یہ جا مع اور قابل عمل ”میانوالی ہیلتھ کیئر انیشی ایٹیو ایک شعوری، بیداری و خدمت انسا نیت پروگرام ہے۔اس کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں مقامی میٹرک /ایف ایس سی پا س خواتین کو بطور رضاکاررجسٹر کر کے لیڈی ہیلتھ ورکر منیو ئیل کی طرز پر تربیت فراہم کی جا رہی ہے۔ ان سے رضا کارانہ طور پر ”مدد گار صحت“ کی حیثیت سے گھر گھر معلو مات کی فراہمی، فرسٹ ایڈ کی سہولت کاری اور صحت و فیملی پلا ننگ کو نسلنگ کا کا م لیا جا ئے گا۔اس وقت تک تقریباً ایک سو سے زائدخواتین اس پروجیکٹ کےلئے اپنی رجسٹریشن کرا چکی ہیں۔جن کی ٹریننگ شروع ہوگئی ہے۔ کمشنر سرگودھا ڈویژن محترمہ ڈاکٹر فرح مسعود نے اس پروجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح کیا ہے۔ بے شک ضلع میانوالی میں شروع کیا جا نیوالا یہ پروجیکٹ قابل ستائش بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے اگر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اسے پورے پنجاب پر پھیلا دیں تواس سے لاکھوں خواتین کو فائدہ پہنچے گا۔معلوم ہوا ہے تربیت یا فتہ ”مدد گار ِ صحت“ خواتین کو ضلع میں ہونیوالی انسدادِ پو لیو و ڈینگی مہم، خسرہ سے بچا ؤ کی حفاظتی ٹیکہ جات مہم، ٹائیفائیڈ مہم سمیت دیگر تما م تفویض کر دہ حکومتی پروگراموں میں ترجیحی بنیادوں پر شامل کیا جائے گا۔ بلا شبہ یہ پنجاب کی تاریخ میں منفرد نوعیت کا پروگرام ہے۔

ڈپٹی کمشنر میانوالی کی خواتین کےلئے ایک اور حیرت انگیز پروجیکٹ بھی شروع کرا رہے ہیں جس سے نہ صرف خواتین کی صحت بہتر ہو گی بلکہ اس کے میانوالی کی معاشرت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ اس پروجیکٹ کے تحت لڑکیوں کے تمام اسکول چھٹی کے بعد خواتین کےلئے پارک میں بدل جائیں گے۔ جم میں تبدیل ہوجائیں گے۔ عورتوں کے کلب کی صورت اختیار کرلیں گے۔ یہاں تعلیم بالغاں بھی دی جاسکے گی۔ خواتین باہمی میل جول سے ایک دوسرے کے مسائل بھی حل کریں گی۔ تین چار گھنٹوں کےلئے اسکول کے گرد و نواح میں رہنے والی تمام عورتوں کےلئے اسکول کھول دیا جایا کرے گا۔ لیڈی پولیس ان خواتین کے تحفظ کےلئے وہاں تعینات ہوگی۔ یہ پروجیکٹ بھی پورے پنجاب میں بلکہ پورے ملک میں شروع ہونا چاہئے۔

تازہ ترین