• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے تحریک طالبان افغانستان کے امیر ملا اختر منصور کے ڈرون حملے میں مارے جانے کی تصدیق کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ایسی کارروائیاں جاری رکھنے کا اعلان خطے میں قیام امن کیلئے جاری کوششوں کیلئے انتہائی مضر دکھائی دیتا ہے۔ ویت نام کے دورے کے موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکی افواج پاکستانی سرزمین پر موجود خطرات کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں گی۔صدر اوباما نے ملا اختر منصور کی ہلاکت کو ایک اہم سنگ میل قراردیتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایک ایسی جماعت کے سربراہ کو راستے سے ہٹایا ہے جو افغانستان میں القاعدہ کے ساتھ مل کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی میں شامل تھا۔انہوںنے ملا منصور کو امن مذاکرات میں غیرسنجیدہ قرار دیا اور طالبان کی بقیہ قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امن مذاکرات ہی کئی عشروں سے جاری تنازع کے خاتمے کا حقیقی راستہ ہیں۔دوسری جانب پاکستانی دفتر خارجہ نے امریکی سفیر ڈیول ہل کو طلب کرکے پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کی نشان دہی کی کہ ایسے اقدامات امن عمل پر منفی اثر ڈالیں گے۔دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے امریکی سفیر پر واضح کیا کہ بلوچستان میں اکیس مئی کو کیا جانے والا ڈرون حملہ اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی ہے جو تمام ملکوں کی سرحدی خودمختاری کی ضمانت دیتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک احتجاجی مراسلہ بھی اس موقع پر امریکی سفیر کے حوالے کیا گیا۔دفتر خارجہ کے مطابق امریکی سفیر کو باور کرایا گیا کہ اس قسم کے حملے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جاری چار ملکی گروپ کی کوششوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے اگرچہ اب تک طالبان سربراہ کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی اور اطلاعات کے مطابق ان کے اہل خانہ نے بھی ان کے بخیریت ہونے کا دعویٰ کیا ہے،تاہم ان کے جانشین کے انتخاب کیلئے طالبان شوریٰ کے اجلاس کی خبر سے پتہ چلتا ہے کہ ڈرون حملے میں ان کے مارے جانے کا امریکی دعویٰ بے بنیاد نہیں۔ ولی محمد کے نام سے جاری ہونے والا جو پاسپورٹ جائے وقوعہ سے ملا ہے اور جس کا حامل متعدد بار جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی سے بیرون ملک کے سفر پر جاتا رہا، اگر وہ فی الواقع طالبان سربراہ ہی کو جاری کیا گیا تھا تو یہ ایک نہایت سنگین معاملہ ہے ۔ اس معاملے کی مکمل تحقیقات اور اس میں ملوث اہلکاروں کی نشان دہی اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ناگزیر ہے۔اور اگر یہ پاسپورٹ واقعی ولی محمد نامی کسی اور شخص کا ہے توا س کے مکمل کوائف کا پتہ چلنا چاہئے ۔ ایسا ہوجائے تو ڈرون حملے میں طالبان سربراہ کی ہلاکت کی خبر کا غلط ہونا ثابت ہوجائے گا۔تاہم جہاں تک صدر اوباما کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ طالبان سربراہ کو پاکستان میں ڈرون حملے میں ہلاک کرکے خطے میں قیام امن کیلئے راستہ ہموار کیا گیا ہے تو فی الحقیقت اس میں کوئی وزن نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ امن مذاکرات کیلئے جاری کوششوں کے دوران آپ جس فریق سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں اس کے سربراہ کو مار دیں اور پھر قیام امن کیلئے اس سے مثبت رویے کی توقع لگائیں۔ بلوچستان میں کی جانے والی تازہ کارروائی کے بعد چار ملکی گروپ کی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کیلئے جاری کوششوں کو جتنا بڑا دھچکا پہنچا ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ کابل حکومت بھی اپنی سرزمین پر ہونے والی ہر کارروائی کا الزام بلاثبوت فوری طور پر پاکستان پر عائد کرتی ہے جس کے امن عمل پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔تاہم یہ بات طے ہے کہ کئی عشروں سے جنگ کے شعلوں میں جھلستے اس خطے کا مستقبل امن ہی سے وابستہ ہے۔اس کیلئے ضروری ہے کہ معاملے کے تمام فریق پوری سنجیدگی اور ذمہ داری سے امن مذاکرات کیلئے سازگار ماحول تشکیل دیں۔ پاکستان اور افغانستان کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کو بھی جاری پالیسیوں کا سیرحاصل جائزہ لے کر انہیں تضادات سے پاک کرنا اور بہتر بنانا چاہیے،اور امریکہ کو بھی اشتعال انگیز کارروائیوںسے مکمل گریز کرتے ہوئے خطے میں جلد از جلد امن کے قیام کو اپنی پالیسیوں کا محور بنانا چاہئے۔
تازہ ترین