• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تُرکی میں فوجی بغاوت کا سر کچل دیا گیا۔ کچھ قربانی محب وطن ترکوں نے دی اور کچھ غدّار مارے گئے۔ اس واقعہ پر عمران خان کا بیان پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ یہاں اگر ایسا واقعہ ہوا تو لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے۔ مٹھائی بانٹنے اور کھانے والوں نے اس کا انجام بھی تو دیکھ لیا ہے۔ اگر آپ یہ کہتے کہ حکمرانوں کو چاہئے کہ عوام دوست اور ملک دوست پالیسی اپنائیں تاکہ اگر ایسا کوئی حادثہ ہو تو عوام اس کو ناکام بنادیں اور جمہوریت کا سر بلند رکھیں۔ مصیبت یہ ہے کہ اس ملک میں سب لیڈر ہی خودغرض اور مفاد پرست ہیں۔
ترک ایک بہادر اور غیور قوم ہے۔ وہ حکمرانوں کی مدد کو اس وقت نہیں آئے جب وہ امریکہ اور یورپین ممالک کے غلام تھے۔ اس وقت صدر طیّب اردوان نے ترک قوم کی نہ صرف معاشی حالت بدل دی ہے بلکہ ملک کو وقار بھی دیدیا ہے۔ یورپین یونین نے ترکی سے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف اس نے جو سخت قوانین نافذ کئے ہیں اگر وہ ان کو تبدیل کرکے یورپین قوانین کے مطابق کردیں تو یورپین یونین ترکوں کو تمام یورپین یونین کے ممالک میں بغیر ویزا آنے جانے کی سہولت دیدے گی۔ اگر ہمارے حکمراں ہوتے تو فوراً یہ بات مان کر اپنے پورے خاندان کو یورپ بھیج دیتے اور وہاں رہائش پذیر بنا دیتے۔ ترکوں نے ہرگز اپنے صدر سے نہیں کہا کہ وہ یہ ناجائز بات مان لیں۔ہمارے یہاں حزب مخالف کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ حکومت ناجائز، غیردستوری طریقہ سے گھر بھیج دی جائے اور یہ چور دروازوں سے اندر گھُس کر لوٹ مار شروع کردیں۔ یہ روایت صدرایوب خان کے دور سے پہلے غلام محمد کے وقت سے چلی آرہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لکڑبھگڑوں کی طرح مویشی کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے ہیں کہ جوں ہی مویشی ذرا بیٹھے یا کمزور ہو تو اس کو زندہ نوچ کھائیں۔
اگر یہاں حکمراں عوام دوست و ملک دوست پالیسی اختیار کریں تو کسی کو ضرورت نہیں کہ غیرقانونی یا غیردستوری طریقہ استعمال کرے۔ اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو عوام اور پولیس یہاں بھی اس کو ناکام بنا دینگے۔ ترک صدر طیب اردوان نے قوم کو شناخت دی ہے ہماری طرح قرضہ لے کر قوم کو فقیر نہیں بنا دیا۔ غیرملکوں سے احکامات لیتے ہیں۔ یہ واحد ملک ہے جہاں کبھی حزب اختلاف نے حکومت کی قانونی حیثیت کو قبول نہیں کیا۔ پہلے دن سے یا تو الیکشن کے نتائج قبول نہیں کئے جاتے یا پھر حکمرانوں پر بہتان بازی شروع کردی جاتی ہے کبھی قانونی کارروائی نہیں کی جاتی۔اور نہ ہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو کے حکمرانوں پر الزامات کس قدر مضحکہ خیز ہیں۔ سوئس بینکوں میں 60 ملین ڈالر، سرے پیلس، فرانس میں محل، امریکہ، لندن و دبئی میں جائیدادیں سب دماغ سے غائب صرف پاناما لیکس کو اپنا لیا ہے۔ عمران خان کے منہ سے کبھی زرداری کے معاملات پر ایک لفظ نہیں سُنا بس نواز، نواز، نواز۔
ہم نے کبھی مغربی ممالک میں حکمرانوں کو سابقہ حکمرانوں پر تنقید کرتے نہیں سُنا۔ نہ صدر کلنٹن نے بُش پر اور نہ صدر اوباما نے چھوٹے بش پر اُنگلی اُٹھائی۔ نہ برطانیہ میں وزیر اعظم نے ٹونی بلیئر پر تنقید کی۔ ایک آزاد انکوائری کمیٹی نے بلیئر کے اقدامات کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ ہمارےہاں پہلے دن سے الیکشن، الیکشن کمیشن، عدلیہ ہر قانونی ادارہ کو متنازع بنا دیا گیا ہے۔ صبح سے شام اکثر ٹی وی اسٹیشن پر یہی باتیں، بدتمیزی، گالیاں سنائی جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ عدلیہ نے متحدہ قائد کے خطابات پر پابندی لگادی ۔ پیمرا کو چاہئے کہ سیاسی لیڈروں کی بھی طویل تقریروں کو بند کردے جو جاننا چاہے اخبار پڑھ لے۔ ٹی وی پر معلوماتی، تعلیمی پروگرام وغیرہ ٹیلی کاسٹ ہونے چاہئیں۔
آپ کو علم ہونا چاہئے کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزی، فرانسیسی، آسٹریلین، نیوزی لینڈکے فوجیوں نے اور انگریزوں کے تحت ہندوستانی فوجیوں نے ترکی پر حملہ کردیا تھا۔ وہ باسفورس اور استنبول پر قبضہ کرنا چاہ رہے تھے مگر مصطفی کمال پاشا نے گلی پولی کی جنگ میں ان کو بُری طرح شکست فاش دی۔ تقریباً 75 ہزار حملہ آور مارے گئے مگر ترکوں نے اور وفادار عرب فوجیوں نے بھی بڑی قربانی دی اور لاکھ سے زیادہ شہید ہوگئے۔ مصطفی کمال پاشا، جنھیں ترک اتاترک یعنی بابائے ترک کہتے ہیں ترک قوم کا وقار بحال کردیا۔ بعد میں سیاست دان مغربی ممالک کے غلام بن گئے اور ان ممالک نے فوجیوں کو اپنا ہم نوالہ ہم پیالہ بنا کر بار بار حکومت کا تختہ اُلٹا۔ جب سے صدر طیّب اردوان آئے ہیں حالات بد ل گئے ہیں۔ ان سے پیشتر وزیر اعظم بلند ایجوت نے قوم کا وقار بلند کیا تھا۔ تمام مغربی ممالک کے دبائو اور دھمکیوں کو نظرانداز کرکے سائپرس کے ترکوں کی حفاظت کی اور آربشپ مکاریوس کی یونان سے الحاق کی سازش کو ناکام بنا دیا تھا۔
ہماری بدقسمتی یہ رہی کہ جتنے بھی ڈکٹیٹر آئے وہ ملک کو پہلے سے بدتر حالت میں چھوڑ کرگئے۔ جنوبی کوریا میں فوجی ڈکٹیٹر نے ملک کی حالت بدل دی تھی اور وہ ملک اَب دنیا کے امیر ترین اور ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔ اگر ڈکٹیٹر ایسا کام کرکے جائیں تو وہ محسن کہلائیں گے ورنہ غاصب، غدّار، ڈکٹیٹر اور تاریخ ان کو ہمیشہ ایسے ہی ناموں سے یاد کرے گی۔ حکمرانوں خدا کیلئے احکامات اِلٰہی اور احادیث نبوی کا لحاظ کرو، ان پر عمل کرو تاکہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو ورنہ اللہ کا عتاب بہت ہی سخت اور تکلیف دہ ہے وہ کبھی گنہگاروں کو نہیں معاف کریگا اس نے یہ وعدہ کیا ہے اور وہ وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔آپ کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے پیچھےکہا جارہا ہے کہ ایک نام نہاد مذہبی رہنما فتح اللہ گولن ہے۔ یہ ایک دہشت گرد تنظیم خدمت تحریک کا بانی ہے یہ امریکہ میں مقیم ہے اور وہاں بیٹھ کر صدر رجب طیب اردوان کی جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش میں ملوث ہے۔ اَفسوس کی یہ بات ہے کہ جس طرح طالبان ہمارے اداروں میں گھس گئے تھے اسی طرح گولن کے پیروکار ترکی کی بری، بحری اور فضائی فوج میں گھس گئے تھے۔ آپ اگر ویڈیو میں جرنلوں، ایڈمرلوں اور ایئر مارشلوں اور پولیس کے افسران کو دیکھیں جو اس سازش کا شکار تھے تو تعجب ہوگا کہ یہ سب اعلیٰ عہدوں پر تھے۔ جس اسلامی ملک میں ایسی بدمعاشی ہوگی اس کا تانا بانا امریکہ اور مغربی دنیا میں ملے گا۔ مغربی ممالک کو صدر اردوان کی آزاد خارجہ پالیسی پسند نہ آئی اور یہ سازش کی۔ اگر خدانخواستہ یہ سازش کامیاب ہوجاتی تو حکمراں جماعت کے تمام لیڈران کو قتل کردیاجاتا۔ اللہ نے ترکی کو بہت بڑے امتحان سے بچا لیا۔
(نوٹ) پچھلے دنوں فرانس کے شہر نیس (Nice) میں ایک دہشت گرد نے سمندر کنارے قومی دن منانے والے مجمع پر ایک ٹرک ٹرالی پوری رفتار سے چڑھا دی۔ اور 84افراد ہلاک ہوگئے اور لاتعداد زخمی ہوئے۔ آجکل ایسے حادثات باکثرت ہورہے ہیں۔ اس سے پیشتر پیرس، برسلز وغیرہ میں بھی ایسے ہولناک حادثات ہوچکے ہیں۔ ایسے حادثات کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپین ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھ کر اسلامی ممالک کو ایک مقصد کے تحت تباہ کررہے ہیں۔ شام کا ان ممالک سے کیا تعلق ہے؟ عراق، لیبیا اور افغانستان کا کیا تعلق ہے؟ ان کو تباہ کردیا۔ پاکستان کا نمبر بھی آجاتا مگر ہماری ایٹمی صلاحیت نے فی الحال بچا رکھا ہے وہ تاک میں ہیں براہ راست یا بالواسطہ ہمارے ملک کو بھی معاشی طور پر تباہ کرکے عراق بنادیں۔ ان ممالک میں چند جذباتی لوگ انتقام لینے پر اُتر آتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بیگناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ اسی طرح جیسے ان ممالک کی بمباری کی وجہ سے بے گناہ مرد، خواتین اور بچے ہلاک ہورہے ہیں۔ تنازعات و فساد کی جو وجوہات ہیں ان کو دور نہیں کرتے۔ تمام مغربی ممالک کھل کر اسرائیل کی جارحیت اور توسیعی پالیسی کی حمایت کررہے ہیں۔ فلسطینی ریاست بنا کر یہ ناسور دور کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر میں، جنوبی سوڈان میں فساد کی جڑ بوگئے ہیں۔ اگر یہ ممالک مشرق وسطیٰ کے ممالک میں دخل اندازی سے باز نہیں آئیں گے تو دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت ان کو نہیں روک سکتی، دوچار سر پھرے نوجوان لاتعداد لوگوں کو خون میں نہلا دینگے۔
تازہ ترین