• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی سیاست میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں مگر غیر یقینی صورتحال میں جمہوریت کاچلتے رہنا یقینا کسی معجزے سے کم نہیں ہوتا۔مئی2013میں مسلم لیگ (ن)کو اقتدار ملا۔ برسراقتدار آنے کے ایک سال بعد ہی اُسکے خلاف دھرنا سیاست شروع ہوگئی۔ایسے لگ رہاتھا کہ حکومت اپنے دوسال بھی شاید پورے نہ کرپائے لیکن وزیر اعظم نوازشریف نے ماضی کی طرح جذباتی اقدامات سے گریزکیا اور صبروتحمل کامظاہرہ کرکے اپنے اقتدار کے تین سال اب تک گزارلیے ہیں۔اگر معاملات کوسنجیدگی اور معاملہ فہمی سے آئندہ بھی لیاگیاتو انشاء اللہ جمہوری حکومت اپنے مزیددوسال پورے کرلے گی۔کیونکہ گئی گزری جمہوریت بھی آمریت سے بہترہوتی ہے۔پاکستان میں چار بار مارشل لا لگ چکے ہیں۔آمریت نے ملک کو ترقی کی بجائے ہمیشہ اندھیروں میںدھکیلا ہے۔اب وطن عزیزپاکستان مزیدکسی نئے بحران کامتحمل نہیں ہوسکتا۔جمہوریت کے تسلسل سے ہی ملک ترقی وخوشحالی کی جانب رواں دواں رہ سکے گالہٰذاسیاسی وعسکری قیادت کوملک کے وسیع ترمفاد میںاکٹھے مل کر چلنا ہوگا۔پاکستانی سیاست کاخوشگوار پہلویہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن نے باہمی مشاورت کے بعد الیکشن کمیشن کے نئے ممبران کاتقررکردیا ہے۔اگرچہ عمران خان نے اس تقررپر تحفظات کااظہارکیاہے لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار کاکہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماشاہ محمود قریشی سے الیکشن کمیشن کے ارکان کے تقررکے سلسلے میں مشاورت کی گئی ہے۔سپریم کورٹ کی ہدایات پر وفاقی حکومت نے اپوزیشن کی مشاورت سے اس اہم کام کو بالآخر مکمل کرلیا ہے۔اب آئینی خلاء پُرہوگیا ہے۔صدر مملکت ممنون حسین نے الیکشن کمیشن کے ارکان کے ناموں کاباقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق پنجاب سے الطاف ابراہیم قریشی،سندھ سے عبدالغفار سومرو،خیبرپختونخوا سے جسٹس ارشاد قیصر اور بلوچستان سے جسٹس خلیل احمد بلوچ کے ناموں کی منظوری دی گئی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں آج تک شفاف اور غیر جانبدار انتخابات نہیں ہوسکے۔1970ء سے لے کر 2013کے انتخابات تک ہر الیکشن پرانگلیاں ہی اٹھتی رہی ہیں۔آزاد ، غیر جانبدار الیکشن کمیشن کاقیام ایک دیرینہ مطالبہ تھا جواب بالآخرپوراہوچکا ہے۔الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کایہ فرض ہے کہ وہ انتخابی نظام کی اصلاح کے ساتھ ساتھ ایسے قابل عمل قواعدوضوابط بنائیںکہ الیکشن سے روپے پیسے کاکھیل ختم ہوسکے اور انتخابی عمل پر عوام کااعتماد بحال ہو۔ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم قوانین تو شوق سے بناتے ہیں مگران پر عملدرآمد نہیں ہوپاتا۔غریب آدمی کیلئے تو قانون حرکت میں آتاہے لیکن امیر اور طاقتور آدمی قانون کے شکنجے سے بچ جاتا ہے۔ہمارے انتخابی نظام میں خرابیوں کی بھی بڑی وجہ الیکشن کے قواعدوضوابط پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔افسوس کہ حکومتی مشینری خود اپنے ہی ہاتھوں سے قانون توڑتی ہے اور سرکاری پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کیلئے تمام ترحربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ہمارے ہاںمنظم انداز میں انتخابی دھاندلی کیلئے ’’ انجینئرڈ انتخابات‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔الیکشن قوانین کے مطابق کوئی بھی امیدوار انتخابی اخراجات کی مقررہ حد سے تجاوز نہیں کرسکتا۔مگرستم ظریفی یہ ہے کہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے امیدواران انتخابی قوانین کی کھلم کھلا دھجیاں اڑاتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا۔یہی وجہ ہے کہ عام آدمی عملاً ریاستی امورسے لاتعلق ہوگیا ہے۔انتخابات میںلوگوں سے بھیڑبکریوں کی طرح ووٹ توڈلوایاجاتا ہے لیکن اُس کے بعدریاستی معاملات میں عام آدمی کاکوئی کردار نہیں ہوتا۔انہی وجوہات کی بناء پر پاکستان میں حقیقی جمہوریت ایک خواب بن کررہ گئی ہے۔جب تک غریب اور متوسط طبقے سے حقیقی قیادت اسمبلیوں میں نہیں پہنچے گی اُس وقت تک پاکستان میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکتی۔عام آدمی کی انتخابی عمل میں شرکت نئے الیکشن کمیشن کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔سوال یہ ہے کہ نیاالیکشن کمیشن اس چیلنج سے بحسن خوبی نمٹ سکے گا؟اگر نئے الیکشن کمیشن نے ماضی سے سبق نہ سیکھااور انتخابی نظام کی اصلاح نہ کی تو شفاف انتخابی نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔
اب کچھ تذکرہ کرتے ہیں کراچی کے بگڑتے حالات کا! سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کراچی کے حالات کو ایک بار پھر خراب کیا جارہا ہے۔ایسے لگتاہے کہ جب سے مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادیٔ کشمیر نے زور پکڑاہے دہشتگرد عناصر نے شہر قائد کراچی کو اپنا ٹارگٹ بنالیا ہے۔کراچی کے اہم علاقے صدر میں حالیہ دہشتگردی کے افسوسناک واقعہ میں دوفوجی جوانوں کو فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔وزیر اعظم نوازشریف نے واقعہ پر افسوس کا اظہارکرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ امن دشمنوں کاخاتمہ کریں گے اور کراچی آپریشن کو پٹری سے نہیں اترنے دیں گے۔وزیر اعظم نوازشریف کایہ بیان حوصلہ افزاہے۔پوری قوم ملک میں دہشت گردی سے نجات چاہتی ہے۔کراچی،قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کاوشوں سے حالات خاصے بہترہوچکے ہیں۔کراچی کا امن بھی رینجرزکی مرہون منت ہے۔حکومت سندھ کو رینجرزکے ساتھ بھرپور تعاون کرناچاہئے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہرتین ماہ بعد سندھ میں رینجرزکے خصوصی اختیارات کی توسیع کامعاملہ بگڑجاتاہے۔اب بھی صورتحال جوں کی توں ہے۔پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے دبئی اجلاس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو توفارغ کردیا ہے مگرسوال یہ ہے کہ آخر ایساکیوں ہوتاہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت رینجرزکے خصوصی اختیارات کی توسیع میں ہر تین ماہ بعدرکاوٹ ڈالتی ہے؟کیا اُسے سندھ اور بالخصوص کراچی کا امن عزیز نہیں ہے؟جب سے ڈاکٹر عاصم حسین اور پیپلزپارٹی کے دیگر رہنمائوں پر رینجرزنے ہاتھ ڈالاہے۔پیپلزپارٹی نے رینجرزکیلئے سندھ میں مشکلات کھڑی کردی ہیں۔اب تو رینجرزنے آصف علی زرداری کے ایک اور قریبی ساتھ اسد کھرل کوبھی لاڑکانہ سے گرفتارکیا ہے۔پیپلزپارٹی کیلئے یہ بھی اناکامسئلہ بن گیا ہے۔امرواقعہ یہ ہے کہ رینجرزنے کراچی میں دہشتگردعناصر اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کیں جس کے نتیجے میں کراچی میں واضح طور پر امن قائم ہوتاہوادکھائی دیا۔ٹارگٹ کلرزاور جرائم پیشہ عناصر نے کراچی میں اپنے گردزمین تنگ ہوتے دیکھ کر سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کے پاس پناہ لے لی لیکن جب رینجرزنے اندرون سندھ کے مختلف شہروں میںدہشتگردوں کوگرفتار کرنے کیلئے کامیاب کارروائیاں کیں تو سندھ حکومت نے رینجرزکے خلاف انتقامی حربے شروع کردیئے ۔اگریہی سلوک جاری رہا تو سندھ میں حالات مزیدخراب ہوسکتے ہیں۔واقفان حال کاکہنا ہے کہ سندھ میں گزشتہ تین سالوں میں پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کے دوران یہ کئی بار ہوچکا ہے کہ رینجرزکوٹارگٹ کلرز،بھتہ خوروں،جرائم پیشہ عناصر اور بدعنوان افراد کو پکڑنے سے روکا گیا۔ پیپلزپارٹی کاہمیشہ سے یہ موقف رہاہے کہ وہ کراچی اور سندھ میں امن چاہتی ہے اور دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی مگر عملی طور پر ایسا دکھائی نہیں دے رہا۔سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کی قیادت کے قول وفعل میں تضادنمایاں طور پرنظر آرہاہے۔ اربوں روپے کی کرپشن پر ڈاکٹر عاصم حسین کو جب گرفتار کیا گیا تو آصف علی زرداری نے فوج اور رینجرزکے خلاف سخت زبان استعمال کی بعد ازاں وہ خاموشی سے دبئی بھی روانہ ہوگئے۔اب اسد کھرل کی گرفتاری پر بھی پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے۔پاکستان میں سیاسی ومعاشی استحکام کے لئے امن کاقیام ازحدضروری ہے۔کراچی میں امن ملکی معیشت کی مضبوطی کیلئے اہم ہے۔پیپلزپارٹی کو سندھ میںاپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ہر صورت تعاون کرنا ہوگا۔واقفان حال کامزیدکہنا ہے کہ اگرچہ پیپلزپارٹی سید قائم علی شاہ کو تبدیل کرکے مراد علی شاہ کووزیر اعلیٰ بنارہی ہے۔لیکن یہ صرف چہرے کی تبدیلی ہوگی۔پیپلزپارٹی کی رینجرزکے بارے میں پالیسی نہیں بدلے گی۔اگر ایسا ہوتاہے توجمہوریت کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔اسلئے پیپلزپارٹی کی قیادت کو دانشمندی سے کام لینا چاہئے اور سندھ میں رینجرزکے خصوصی اختیارات میں توسیع کے معاملے کو اپنی اناکامسئلہ ہرگز نہیں بناناچاہئے بلکہ دہشتگردی اور کرپشن کے خلاف آپریشن کو کامیاب بنانے کے لئے اُسے رینجرزکے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہئے.


.
تازہ ترین