• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ویسے تو اکیسویں صدی کے کمپیوٹرز، سافٹ ویئر، سائبر جاسوس، سائبر ہتھیار اور سائبر سیکورٹی کے معاملات اور ٹیکنالوجی ہم پرانی نسل کے لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ اس کا توڑ جوڑ اور اس ٹیکنالوجی سے ملکی اور قومی بقاکو لاحق خطرات کو ملک کی فوجی اور سویلین قیادت جانے اور نئی نسل کے نوجوان اس بارے میں اپنی مہارت دکھائیں۔ مجھے تو ان انکشافات پر تشویش ہے جو 19اگست کو اس شعبہ کے ماہر سام بڈل نامی مصنف نے امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی ایجنسی کی دستاویزات اور دیگر خفیہ مواد کے حوالے سے کئے ہیں۔
1۔امریکی نیشنل سیکورٹی ایجنسی کے ہیکرز نے اپریل 2013ء میں پاکستان کے نیشنل ٹیلی کمیونی کیشن نظام کی وی آئی پی ڈویژن پر سائبر حملہ کرکے اس گرین لائن کمیونی کیشن کے پار نظام کے بارے میں تمام معلومات حاصل کرلیں جو پاکستان کی فوجی اور سویلین قیادت استعمال کرتی ہے۔ اور یہ پاکستان کے نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
2۔بعدازاں ایک اور خفیہ کوڈ نام والے سافٹ ویئر کے ذریعے پاکستان کے نظام پر کئی بار حملے ٹارگٹ کرکے متعلقہ اور مطلوبہ کمپیوٹرز کو ’’انفیکٹ‘‘ کردیا گیا۔
3۔سام بڈل نے اپنے مضمون میں ان تمام خفیہ سافٹ ویئرز کے خفیہ نام بھی تحریر کئے ہیں جو پاکستان کی سائبر جاسوسی کے لئے استعمال کئے گئے اور یہ بھی بتایا ہے کہ بعض خفیہ سافٹ ویئرز کو ڈرون کے ساتھ بھی ’’اٹیج‘‘ کرکے بہت سے کام لئے جاسکتے ہیں۔ جن قارئین کو مزید تصدیق ،فنی معلومات اور تفصیلات کی خواہش ہو وہ سام بڈل کی انگریزی تحریرا ور حوالے خود پڑھ لیں۔ کیا پاکستانی حکومت کے متعلقہ ذمہ داروں نے جمہوری پاکستان کے مالک عوام کو اس تمام حقیقت سے آگا ہ کیا؟ کیا اللہ کی حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کی انسانی نیابت کرنے والوں نے پاکستان کے ٹیلی کمیونی کیشن نظام کے وی آئی پی ڈویژن پر سائبر حملوں سے ہونے والے نقصانات اور پاکستان کے قومی اثاثوں کو لاحق خطرات کی تفصیل ملک کے عوام کو بتائی؟ اور نقصان کا ازالہ کرنے کے لئے عوامی خزانے سے کئے گئے اخراجات و اقدامات کرکے عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی؟ پاکستانی عوام کی یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے بارے میں بہت سے اہم حقائق اور نتائج ہمیں نقصان ہوجانےکے بعد اپنے حکمرانوںکی بجائے غیروں سے ہی ملتے ہیں۔ مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش میں تبدیل ہوچکا تھا دنیا بھر کو بنگلہ دیش کے وجود کی حقیقت سے آگاہی ہوگئی تھی مگر ہمارے حکمراں اتنے بڑے ’’تاریخی سرنڈر‘‘ کو ایک سمجھوتہ کے مطابق مشرقی پاکستان میں بھارتی فوج کے داخل ہونے کی خبروں کے پردے میں اپنے ہی عوام سے چھپا رہے تھے۔ بھٹو دور میں مقرر کردہ کمیشن نے جب رپورٹ مکمل کرکے پیش بھی کردی تو اسے عوام سے چھپانے کے لئے خفیہ دستاویز قرار دیدیا گیا اس رپورٹ کی ایک کاپی تو وزیراعظم ذوالفقار بھٹو کو پیش کی گئی بقیہ کاپیاں تباہ کردی گئیں یا چوری ہوگئیں۔ پھر بتایا گیا کہ وزیراعظم بھٹو کو پیش کردہ رپورٹ کی کاپی بھی وزیراعظم سیکرٹریٹ سے لاپتہ ہے یہ رپورٹ خفیہ رہی، اس کی کاپیاں چوری ہوتی رہیں یا تباہ کی جاتی رہیں لیکن عوام کو ہی لاعلم رکھا گیا۔ بالآخر 2000ء میں بھارتی میڈیا نے اس حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کے بعض حصے شائع کرکے ہم پاکستانیوں کو آگاہ کیا کہ ہمارے پاکستان میں قائم کردہ حمود الرحمن کمیشن کی اس رپورٹ میں کیا لکھا ہوا تھا۔ وہ رپورٹ جس کی تمام کاپیاں پاکستان میں پراسرار انداز میں چوری یا تباہی کا شکار ہوچکی تھیں وہ دشمن ملک بھارت کے ذریعے بالآخر پاکستانی عوام تک پہنچی اور کسی کو اسےبے بنیاد اور دشمن کاپروپیگنڈہ کہنے کی جرأت بھی نہ ہوسکی۔
اسی سلسلے کا ایک حقیقی واقعہ بھی سنئے۔ واشنگٹن میں متعین ایک بھارتی صحافی جو اپنی تیز رفتار ٹائپنگ کے حوالے سے مشہور اور واشنگٹن میں ایک عرصہ سے متعین ہیں۔ انہوں نے حمود الرحمن کمیشن کے حوالے سے ایک خبر شائع کی اقوام متحدہ میں متعین اے پی پی کے نمائندے محترم افتخار علی نے بھی یہ خبر پڑھی اور ہم نے اس خبر کے بارے میں بھارتی پروپیگنڈہ ہونے کے شک کا اظہار کیا لیکن مذکورہ بھارتی صحافی سے فون پر رابطہ کیا تو وہ نہ صرف اس خبر کے بارے میں سنجیدہ تھے اور کہنے لگے کہ ان کے پاس حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی کاپی ہے۔ یہ غالباً 1998ء کا سال تھا۔ مختصر یہ کہ میں اور افتخار علی واشنگٹن گئے اور بڑی جدوجہد کے بعد بھارتی صحافی نے ہمیں چند صفحات پڑھنے کو دیئے۔ چونکہ موبائل اور انٹرنیٹ کے دور سے قبل کے ماحول میں ہم ان صفحات کو پڑھنے کے بعد یہ سوچتے ہوئے واپس آگئے کہ اس کی تصدیق ممکن نہیں۔ لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ جب حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آئی تو کئی سال قبل بھارتی صحافی سے لے کر جو صفحات پڑھے تھے وہ اس رپورٹ کا حصہ اور درست تھے۔ کیا بدقسمتی ہے کہ میرا ملک ٹوٹا اور پاکستانی قوم تاریخی ٹریجڈی سے گزری لیکن حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ ہم سے ہی چھپائی گئی جس میں اس شکست کے اسباب و حالات کا ذکر تھا۔
ڈرونز حملوں کی حقیقت بھی پاکستانی عوام سے چھپائی گئی۔ مشرف دور میں حکمران نے ڈرونز حملوں کی اجازت دی اور حملوں کے وقت ہماری حکومت کا امریکہ سے احتجاج اور عوامی واویلا محض نمائشی تھا۔ جو بعد کے وقت میں عوام کے سامنے آگیا۔ یہ حقیقت بھی امریکی میڈیا کی رپورٹس کے ذریعے سامنے آئی۔ صدر آصف زرداری اور اس وقت کے امریکی سی آئی اے کے سربراہ جنرل مائیکل ہیڈن کی نیویارک میں خفیہ ملاقات میں ڈرونز حملوں سے ہونے والی سویلین اموات اور تباہی کے بار ےمیں پاکستان کے عوامی احتجاج کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔ ہم نے سب کچھ مان لیا مگر عوام کو کچھ بھی نہیں بتایا گیا۔ یہ وہ ملاقات تھی جس کی انکشافاتی رپورٹنگ خاکسار نے عین ملاقات کے وقت نیویارک کی اسی شاہراہ پر کھڑے ہوکر کی جہاں ہوٹل کی بالائی منزل میں یہ ملاقات جاری تھی۔ غیراعلانیہ غیرطے شدہ وہ تاریخی اور خفیہ ملاقات تھی جس نے زرداری حکومت کو استحکام بخشا۔ کتنے دکھ کی بات ہے کہ عوام اور جمہوریت کا نام لے کر بھی بہت سے قومی امور کی حقیقت سے قوم کو بے خبر رکھا جائے۔
اب ایم کیو ایم کے حوالے سے جو نئی صورتحال 23اگست کو اچانک سامنے آئی ہے اس کا پس منظر اپنی جگہ مستقبل کی صورتحال قدرے پریشان کن یوں نظر آتی ہے کہ ملک کی سلامتی اور بقا کے خلاف بھی نعرہ لگادیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان میں جو بھی اقدامات ہوں گے اس کا جوابی اقدام امریکہ، برطانیہ اور کینیڈامیں ایم کیو ایم کے اراکین کی جانب سے ہوگا۔ اطلاعات گردش کررہی ہیں کہ نیویارک، واشنگٹن، ٹورنٹو، اوٹاوا شکاگو اور دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے ہوں گے۔ صحافیوں اور میڈیا سے زیادتی پر اور پاکستان اور فوج کے خلاف غصہ بھری تقریر کے بعد الطاف حسین کی تحریری معذرت سے صورتحال بہتر ہونے کی اگر کوئی گنجائش پیدا ہونے کی امیدتھی تو اسی رات پھر معذرت کے بعد دو گھنٹے تک امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں اپنے کارکنوں سے خطاب میں محترم الطاف حسین نے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش اور غصہ کے ساتھ فوج، پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ پہلے سے بھی زیادہ خطرناک عزائم ظاہر کرتا ہے۔ یہ اسرائیل، بھارت، امریکہ، برطانیہ سے پاکستان کے خلاف کارروائی کرکے دہشت گرد ملک قرار دلوانے کی حکمت عملی ہے۔ بیرون پاکستان سے ملک کی بقا کے خلاف نعروں سے آگے بڑھ کر کام کرنے کی ہدایات دیدی گئی ہیں۔ کیا اس صورتحال کا مقابلہ بھی حقائق کو چھپانے کی بجائے میدان میں عمل سے کیا جائے گااور کیا حقائق کو عوام کے سامنےرکھا جائے گا۔

.
تازہ ترین