• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈیڑھ دو سال پہلے بتایا جاتا تھا کہ پاکستان میں ڈاکٹرز زیادہ ہیں اور نرسیں کم ہیں۔ معلوم نہیں کہ تازہ ترین صورتحال کیسی ہے؟ مگر مخصوص ہیلتھ کیئر اورمیڈیکل ایجوکیشن کے سیکرٹری نجم احمدشاہ نے کہا ہے کہ نرسنگ کے شعبہ کے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور نرسوں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں اور ان کے اختیارات میں بھی اضافہ کیا جائے گا۔نجم احمد شاہ سول سیکرٹریٹ میں نرسنگ کے شعبہ میں لائی جانے والی تبدیلیوں کاجائزہ لینے والے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ڈائریکٹوریٹ آف نرسنگ کو پہلے سے زیادہ اختیارات دیئے جارہے ہیں اور نرسوں کو ان کے احاطہ کار میں زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے گا۔انہیں اپنی کارکردگی بہتر بنانے کے تمام مواقع بھی دیئے جائیں گے اور وہ اپنے سامنے ترقی کی راہیں بھی کھلی دیکھیں گی۔ سرکاری ہسپتالوں میں نرسوں کی تعداد میں مناسب اضافہ کیا جائے گا۔ پنجاب میں بھی نرسنگ کونسل بنائی جائے گی۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف نرسنگ آزادانہ طور پر اپنے تمام فیصلے کرسکیں گی۔سیکرٹری میڈیکل ایجوکیشن نے کہا کہ حکومت نے نرسنگ سروس اور شعبہ کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور محفوظ بنانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبہ میں شامل اور شریک ہونے کا فیصلہ کرسکیں اور دکھی انسانیت کی خدمت کے فرائض پر توجہ دے سکیں۔بہت عرصہ پہلے فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہدِ حکومت میں کراچی کے ایک ہوٹل کی افتتاحی تقریب میں ایوب خان اپنے خطاب میں فرما رہے تھے کہ مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ یہاں اس ہوٹل کے بیرے گریجوایٹ ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے جس سے محنت کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ تقریب میں موجود کسی گستاخ نوجوان نے کہا کہ ’’محنت کی عظمت ظاہر ہوئی ہے تو تعلیم کی عظمت کا کیا قصورہے؟‘‘ پولیس نے اس گستاخ نوجوان کے ساتھ جو سلوک کیا ہوگا وہ اپنی جگہ ہے مگر ہمارا ایک بہت بڑا مسئلہ جاگیردارانہ سوچ کا بھی ہے۔ جاگیرداری سوچ رکھنے والوں کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہوگی کہ ہوٹل کا بی اے پاس بیرا ان کی سگریٹ کو ماچس کی تیلی فراہم کررہا ہے اور اس میں محنت کی عظمت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نرسوں کے معاملے میں بھی ہماری سوچ کو جاگیرداری ذہنیت سے نکل کر انسانی ذہنوں کے قریب آنا چاہئے اور خدمت ِ خلق خدا کو ایک عبادت کے طور پر سرانجام دینے والوں کو اپنے نوکر، کمی، کمین اور ملازم نہیں سمجھنا چاہئے۔ سوچ کی اس تبدیلی سے ایک قومی سوچ ابھرے گی اور اس قومی سوچ کی پاکستان کو ضرورت ہے۔ اس قومی سوچ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کے کاروبار کی نوعیت کو لوگوں کی ذات، برادری نہیں سمجھ لینا چاہئے۔ ہمارے سر کے بالوں کو سنوارنے والے حجام اور ہیئر ڈریسرز ہوسکتے ہیں انہیں ذات کے نائی کہنا غلط ہوگا۔ ہمارے لئے کپڑے بُننے والے ہمارے مددگار اور ساتھی ہیں انہیں ’’جلاہے‘‘ کہہ کر یاد کرناصحیح نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر ڈاکٹر کسی کی ذات نہیں ہے تو نرس کی بھی گوت نہیں ہوسکتی۔ وہ ہماری طرح کی انسان اور ڈاکٹر جیسی اہمیت رکھنےوالی خاتون ہے جس کا احترام اور جس کی قدر ہم پر لازم ہے۔ 

.
تازہ ترین