• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈر ہے کارکنان اجلاس میں آئیں تو گرفتار نہ ہوجائیں،خالد مقبول

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمدنے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو ہماری ریلیوں کو غیر آئینی کہنے کا حق نہیں ہےہم ہر آئینی و قانونی فورم پر گئے ہیں لیکن فیصلہ سڑکوں پر ہوتا نظر آرہا ہے ،ایم کیو ایم کے سینئر رہنما خالد مقبول صدیقی نےکچھ لوگ پاکستان مردہ باد کے نعرے سے زیادہ ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے پاکستان زندہ باد کے نعرے سے پریشان ہیں۔میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان فاروق ستار کی سربراہی میں آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھارہی ہے، بدھ کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے جبکہ جمعرات کو ورکرز کا اجلاس بلالیا گیا ہے، جو لوگ ایم کیو ایم کو جانتے ہیں وہ اس بات کی اہمیت سمجھتے ہیں کہ جب کارکنوں کا اجلاس ہوگا تو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے فیصلوں پر کارکنوں کا ردعمل بہت اہم ہوگا۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ رینجرز کی 22 اگست کے واقعہ کے حوالے سے پریس ریلیز بڑی اہم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رینجرز نے شاہ فیصل کالونی اور سعودآباد سے چار ملزمان کو گرفتار کیا ہے جو نجی ٹیلی ویژن پر حملے اور شرپسندی میں ملوث ہیں، ان چاروں ملزمان کا تعلق ایم کیوایم (لندن سیکرٹریٹ ) سے ہے، کیا یہ رینجرز کی طرف سے واضح اشارہ ہے کہ سارا معاملہ ایم کیو ایم لندن کی طرف ڈالا جارہا ہے جس سے ایم کیو ایم پاکستان اس وقت مکمل لاتعلقی کا اظہار کررہی ہے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ پنجاب حکومت کی طرف سے اداکار حمزہ علی عباسی کو سوشل میڈیا پر ان کی ایک پوسٹ پر قانونی نوٹس بھیجا گیا ہے جس میں انہوں نے پنجاب میں 900بچے اغوا ہونے کا ذکر کیا تھا، یہ ٹوئٹ صرف حمزہ علی عباسی نے نہیں کی، آصفہ بھٹو زرداری کی جانب سے بھی 900 سے زائد بچوں کے لاپتہ ہونے کی ٹوئٹ کی گئی، مسلم لیگ ن کی ایم پی اے نے بھی بچوں کی گمشدگی کی ٹوئٹ کی لیکن پنجاب حکومت نے حمزہ علی عباسی کو ہی نوٹس کیوں بھیجا ہے۔  ایم کیو ایم کے سینئر رہنما خالد مقبول صدیقی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 22اگست کے واقعہ میں جن افراد کو گرفتار کیا گیا ان کا تعلق ایم کیو ایم پاکستان سے ہو یا انٹرنیشنل سیکرٹریٹ سے ہو ان پر الزام ثابت ہو تو انہیں سزا ملنی چاہئے،ایم کیو ایم کیخلاف 1992ء سے الزامات لگائے جارہے ہیں لیکن صولت مرزا کے علاوہ کوئی الزام ثابت نہیں ہوا،  کورٹس سے ایم کیو ایم کے بہت سے کارکنوں کو سزائیں ہوئیں لیکن ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں وہ رہا ہوجاتے ہیں، ایم کیو ایم میں بیٹھے لوگوں کو لگتا ہے متحدہ میں ایسے عناصر کسی کے تحفظ میں رہتے ہیں ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں میرے ڈپٹی کنوینر بننے کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نہیں ہوئے، اس زمانے میں ہم نے کچھ نامعلوم لوگ دیکھے تو پوچھا تھا کہ یہ کیوں رہ رہے ہیں اور پھر انہیں نکالا تھا، ہمیں ڈر ہے کل کارکنان اجلاس میں آئیں تو ان کی گرفتاریاں نہ شروع ہوجائیں۔ خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ پاکستان مردہ باد کے نعرے سے زیادہ ایم کیو ایم پاکستان کی طرف سے پاکستان زندہ باد کے نعرے سے پریشان ہیں، بہت عرصے سے مطالبہ تھا کہ کسی کو مائنس کردیا جائے، الطاف حسین سے 35 سال کی رفاقت رہی مگر جب الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرہ لگایا تو پوری جماعت کھڑی ہوگئی،1992ء کی طرح آج بھی نازک مرحلہ پر پوری تنظیم اور پوری قوم صحیح راستے پر کھڑی ہوئی ہے۔ خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ سیکیورٹی کے نام پر مجھے ایک گارڈ بھی نہیں دیا گیا ہے، فاروق ستار کے ساتھ سیکیورٹی ہے لیکن انہیں زیادہ سیکیورٹی کی ضرورت ہے، نبیل گبول نے کہا ہے پی ایس پی کے جو دفاتر کھلیں گے اس میں گینگ وار اور حقیقی کے لوگ ان کو چلائیں گے۔ماضی کے حوالے سے خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ 1992ء میں عظیم احمد طارق نے کسی سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا تھا،اس وقت ریاست نے مطالبہ کیا تھا کہ الطاف حسین سیاست سے دستبردارہوجائیں، الطاف حسین نے کہا کہ میں سیاست سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہوں لیکن جواب میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن روکنے کی یقین دہانی کرائی جائے، الطاف حسین کہتے ہیں میں نے استعفیٰ دیدیا تھا مگر میرا فیصلہ آپریشن روکنے سے مشروط تھا چونکہ آپریشن نہیں روکا گیا تو میں بھی استعفے کے فیصلے کا پابند نہیں رہا۔
تازہ ترین