• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا دارالحکومت کو بند کرنا جمہوری عمل ہے؟

اسلام آباد(تجزیہ  میک لودھی) حکمران جماعت کے خلاف احتجاج کسی بھی اپوزیشن جماعت یا اتحاد کا یقینا حق ہے مگر کیا دارالحکومت بند کرنا جمہوری عمل ہے؟ کیا کسی اور جمہوری ملک میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ اگر جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت ہے تو کیا انہیں اس نام پر سزا دی جاسکتی ہے؟ کیا حکومتی امورکو منجمد کیا جاسکتا ہے؟کیا وزیراعظم سے استعفیٰ کیلئے سفارتخانوں ، عدالتوں ، بزنس ہائوسز اور دیگر اداروں کو تالے لگائے جاسکتے ہیں؟ کیا ماضی یا عصر حاضر میں جمہوریت کے کسی فلاسفر نے یہ نظر یہ پیش کیا ہے کہ اگر جمہوریت آئیڈیل نہ ہو تو اس کے دروازے بند کردئیے جائیں؟ کیا دنیا میں کوئی ایسا جمہوری نظام موجود ہے جسے کامل قرار دیا جا سکے؟ کیا پانامالیکس صرف وزیراعظم پاکستان سے متعلق ہے یا یہ ایک عالمی مسئلہ ہے؟ کیا یہ صرف حال کا معاملہ ہے؟کیا موجودہ نظام حکومت گزشتہ سے زیادہ برا ہے؟ کیاغیر مقبول حکومت کے خلاف کہیں عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں؟ کیا عوام موجودہ حکومت سے بیزار اور تھک چکے ہیں؟اگر ان تمام سوالوں کے جواب نفی میں ہیں تو آخر عمران خان کیسی   مثال قائم کرنا چاہتے ہیں؟ میڈیا سے اپنی تازہ ترین بات چیت میں عمران خان دوبارہ تیسری قوت کے بارے میں بات کرچکے ہیں ایک شخص خود بڑی غلطی کرکے دوسرے پرکس طرح الزام دھر سکتا ہے؟ کیا مسٹر خان تیسری قوت کی مداخلت کے نتائج اور اثرات سے واقف نہیں؟کیا ان کا خیال ہے کہ انہیں اسی طرح ملک کو چلانے کی دعوت دی جائے گی جیسے کسی کو آئس کریم کاکپ دیا جاتا ہے؟ کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے محبوب بے بی ہیں؟ کیا کسی شبخون مارنے والے نے سویلین حکمران دیا؟ کیا مسٹر خان جمہوری طریقوں سے اقتدارکے حصول پر یقین رکھتے ہیں؟ کیا وہ طویل جمہوری جنگ لڑکر تھک چکے ہیں؟ ساری عمر کرکٹ کھیلنے والے عمر ان خان فوجی حکومتوں کے طریقوں کے بارے میں بہت کم  علم رکھتے ہیں۔ کیا وہ جانتے ہیں کہ ملک کو درپیش مسائل کی بڑی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو بیک ڈور سے اقتدار میں آئے۔ جہادیوں ،دہشتگردوں کی نمو، تنگ نظرپالیسیوں کیلئے فوجی حکومتوں کی گود میں پلنے اور گہرے تزدیرانی مقاصد کی بجائے محدود مقاصداور فوائد کیلئے اقدامات کی اس سے بہتر مثال نہیں مل سکتی۔ دو نسلیں ملا ملٹری گروہ بندی کو بھگت چکی ہیں، موجودہ فوجی قیادت جسے یہ اسی قسم کی فصلیں اکھاڑنے پرہیرو قرار دینے  کا ہم دعویٰ کرتے ہیں، جانتی ہے کہ ان نرسریوں کو اکھاڑ پھینکنا اس سے بڑھ کر کسی کی ذمہ داری نہیں جو خود اس کی بقا کیلئے خطرہ بن رہی ہیں۔ عمران خان کے ارادے مزید پیچیدہ اورغیر جمہوری لگتے ہیں کہ انہوں نے دارالحکومت کو بند کرنے کیلئے ایسے وقت کا انتخاب کیا ہے جس سویلین حکومت نیا آرمی چیف لگانے جارہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ حکومت انتہائی حساس معاملے پر فیصلہ سازی کرتے ہوئے یقینا کمزورپوزیشن پر ہوگی۔کیا صرف ایک لیک  نیوز رپورٹ کی بنیاد پرسب کچھ الٹ دینا اورتیسری قوت کو منتخب حکومت کو گرانے کی اجازت  دے دینی چاہئے؟ اگر عمران خان لیک خبر ،آرمی چیف کی تقرری اور اسلام آباد کی بندش کی اپنی کال کے ذریعے کچھ کشیدکرنا چاہتے ہیں تو یہ جادوگری اور ٹونہ کب کا زائد المیعاد اورمتروک ہو چکاہے یہ ایسی حرکت ہے جسے جمہوری دنیا میں صرف چند ہی سراہیں گے۔ عالمی قیادت مسکراتے ہوئے یہ سمجھے گی کے ہم کتنے بیوقوف ہیں،وہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں چند ہی لوگ سیاسی فراست کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نوزائیدہ اور ہیجان  زدہ الیکٹرانک میڈیا شاید اپنی حدود سے کچھ تجاوز کر رہاہے،میرے کچھ دوست اس وقت جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جب وہ لوگوں کا بڑا اجتماع دیکھتے ہیں،یہ بازی گری تو بے صبری سے ہی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس کے لئے میں جماعت اسلامی کے حالیہ عوامی اجتماع کا حوالہ نہیں دینا چاہتا مگر یہ بہرحال مناسب ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی ایک ایسی سیاسی حماعت ہے جس کا گراف گزشتہ عام انتخابات میں ڈرامائی طورپر اوپر گیا ہے، ہم میڈیا سے تعلق رکھتے ہوئے یقین رکھتے ہیں کہ اسے مزید آگے بڑھنا اور شیڈو گورنمنٹ کی حیثیت سے عوام کی خدمت کرنی چاہئے۔میڈیا ہمیشہ اپوزیشن جماعتوں کا معاون رہا ہے مگر بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی قیادت اپنے پتے  درست انداز میں نہیں کھیل رہی اور شارٹ کٹ تلاش کرتی نظر آتی ہے۔اسے ضمنی انتخابات میں مسلسل دھچکے لگے ہیں، بظاہر اس کا گراف نیچے آ رہا ہے اور اس کی قوت  برداشت جواب دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی اسلام آباد بندکر کے مناسب قوت حاصل کر سکتی ہے مگر کیا وہ جمہوری قوتوں کو چوپٹ کرنا چاہتی ہے؟ لگتا ہے کہ وہ ایسا کر سکتی ہے۔اس کیلئے  وہ تیسری قوت  کی ثالثی چاہتی ہے، پاکستان کے عوام نے بہت دفعہ سیاسی جھٹکے دیکھے ہیں،یہ ایک بڑی وجہ ہے جس کے باعث پاکستان ترقی نہیں کر سکا، یہ جاننا مشکل ہے کہ سیاسی قیادت ہر مرتبہ ہی فعالیت میں ناکام رہی ہے۔ نیا آزاد ہونے والا الیکٹرانک میڈیا انتہائی حساس ہو چکا ہے وہ چھوٹے واقعات کو بڑا کر کے پیش کرتا ہے۔ وہ ایک ہیرو کو ولن کا بھیس بدلنے پر مجبور کر رہا ہے۔ فوجی قیادت کی تبدیلی مربوط انداز میں ہونی چاہئے، صرف یہی  معیار ہونا چاہئے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کو کون بہتر انداز میں آگے لے کر چل سکتا ہے جس میں ملک پھنسا ہوا ہے۔ افراد کو چاہے  وہ ہیرو ہی کیوں نہ ہوں انہیں ادارہ جاتی سیٹ اپ پر ترجیح نہیں ملنی چاہئے،پاک فوج زرخیز قوت ہے اسے صرف ایسے نئے لیڈر کی ضرورت ہے جو اٹھتے ہوئے طوفانوں کا مقابلہ کر سکے، سویلین قیادت صرف یہ دیکھے کہ کون بہترین پیشہ ور ہے۔ اسے من پسند، ایک غیر مقبول جنرل یا  جھک کر ملنے والے کے چنائو کے تجربات ہوچکے ہیں،ایک پیشہ ور فوجی سے بہتر کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔عوام امید رکھتے ہیں کہ سویلین قیادت درست انتخاب کرے گی ، غلط فیصلے سے بھڑوں کے چھتے سے ملک کی بازیابی کا طویل سفر بہتر انداز میں آگے نہیں بڑھ سکے گا۔ پاکستان کو اب بھی دہشت گردوں، عسکریت پسندوں کے خاتمے کے لئے بہت سفر کرنا ہے، جن میں سے اکثر کو  جڑ سے اکھاڑا اور تباہ کیا جا چکاہے مگر یہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے مکمل خاتمے کے لئے کئی فوجی سربراہوں کے ادوار کی ضرورت ہوگی۔
تازہ ترین