• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے گھر کے راستے میں کوئی سڑک نہیں ... خصوصی تحریر…محمد ناصر

SMS: #KMC (space) message & send to 8001
ہماری تو حسرت رہی کہ ہم جب آفس سے گھر یا گھر سے آفس کے راستے پر چلیں تو ہمارے سر پر مختلف قسم کے گومڑ نہ بنیں، یہ گومڑ سطح سمندر پر اُبھرنے والے جزیروں کی مانند اچھے نہیں لگتے لیکن اس میں ہمارا اپنامقدر کم اور محکمہ بلدیات کا بہت زیادہ ہے کہ وہ آج کل سڑکیں نہ بنانے کی قسم کھائے بیٹھے ہیں اور ہم لاکھ کوشش کے بعد بھی اپنے سر کو گاڑی کی چھت سے ٹکرانے سے نہیں بچا پاتے، ہم گاڑی پر نہ بھی جائیں تو بھی ہمارا سر ’’نامعلوم خوف‘‘ کے باعث درد سے کراہنے لگتا ہے، ویسے بھی ہم ’’فارغ البال‘‘ والے اسٹیج میں داخل ہورہے ہیں اور سر پر اُبھرنے والے مختلف جزیرے ہمیں عہد رفتہ کی یاد دلانے لگے ہیں۔ ہمارے کئی دوست تو اب ’’واک‘‘ چھوڑ چکے، کہتے ہیں کہ جب کھانے کے بعد آپ اِن پگڈنڈیوں پر سفر کریں تو آپ کو اتنے دھچکے لگتے ہیں کہ کھانا خودبخود ہضم ہوجاتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس بقر عید پر حکومت نے آلائشیں ٹھکانے لگانےکیلئے لینڈ فل سائٹ پر گڑھے نہیں کھودے بلکہ پہلے سے موجود اِن سڑکوں کے کئی گڑھے اِن آلائشوں سے بھردیئے ۔ سڑک ہموار نہ ہوسکی لیکن گڑھے تو بھر گئے۔ سنا ہے کہ اِن سڑکوں کی تعمیر کیلئے مختص کئے جانے والے فنڈز تو باقاعدگی سے استعمال ہوتے ہیں، ہاں اِن فنڈ سے سڑکیں تو نہ بن سکیں ہاں بہت سوں کے گھر بن گئے۔ اب کوئی اِن سڑکوں پر رہ تو نہیں سکتا، گھر بننے سے بہت سوں کو ٹھکانہ مل گیا ہے جو نیکی کا کام ہے، بے گھر کو گھر مل سکتا ہے، بے کار کو کار مل سکتی ہے لیکن بے سڑک کو تو صرف سڑک چھاپ کا ہی لقب مل سکتا ہے۔ اب یہ محاورہ بھی تبدیل ہو جائے گا سڑک چھاپ میں سڑک متروک ہوچکی ہے۔ اس کی جگہ گڑھے نے لے لی، یوں محاورہ ’’گڑھا چھاپ‘‘ بن سکتا ہے۔ ایک دِن ہم رات گئے تھکے ہارے آفس سے نکلے تو تھکن اور نیند کا غلبہ دونوں ساتھ تھے اچانک گاڑی خوفناک دھماکے سے گڑھے میں جاگری اس حالت میں کچھ منہ میں عجیب سا ذائقہ محسوس ہوا، اِس دِن حقیقتاً کلیجہ منہ کو آگیا تھا؟ اِنہی پتھروں پر چل کر آسکو تو آئو۔ میرے گھر کے راستے میں اب کوئی سڑک نہیں۔ مصطفی زیدی کے اس شعر کو ہم نے حسب حال توکردیا ہے مگر کچھ حضرات کو شاید ناگوار گزرے۔ میں آج کل جن سڑکوں پر سفر کررہا ہوں، اُن کا حال کیسے بتائوں میں اِن بدحال سڑکوں کا حال بتابتا کر بے حال ہوگیا ہوں۔ کوئی سڑک ایسی نہیں جس پر چاند جیسے گڑھے نہ ہوں۔ میرے خیال سے اِنہیں ’’سڑکیں‘‘ کہنا ، سڑکوں کی توہین ہوگی۔ اس سے تو دیہات کی سڑکیں اچھی ہونگی ، جہاں اب تانگوں کی جگہ گاڑیوں نے لے لی ہیں، اب وہاں بھی جدید ترین ماڈل کی گاڑیاں دندناتی پھرتی ہیں مگر شہروں کا ایسا حال کیوں؟ کوئی بتائے کہ ہم بتائیں کیا۔۔۔!!! کوئی اِن سڑکوں کی تعمیر ، اِن کی استرکاری اور اِن کی مرمت کا بوجھ اُٹھانے کو تیار نہیں، ہم کہاں کھڑے ہیں؟۔ اب ٹوٹی پھوٹی سڑکوں سے ٹریفک جام ہوتا ہے، لوگوں کا وقت اور فیول ضائع ہوتا ہے، صاف ستھری اور معیاری سڑکیں شہریوں کا حق ہیں، اور اس کیلئے شہری ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں مگر یہ پیسے سڑکوں، بنیادی اسٹرکچر کی بحالی اور عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ نہیں ہورہے۔ اس وقت کئی بڑے شہر بشمول کراچی میں سڑکیں سوراخوں سے بھری پڑی ہیں ، آپ کسی بھی سڑک پر سفر کیلئے جائیں سب سے پہلے آپ کا استقبال ایک چھوٹا گڑھا کرے گا پھر اس کے بعد تو جیسے لائن لگ جائے گی اور ایک سے بڑھ کر ایک سوراخ اور گڑھا آپ کا بڑھ کر استقبال کررہا ہوگا اور ایسا لگے گا کہ آپ کسی جماعت کے لیڈر ہیں اور یہ گڑھے آپ کے کارکن ہیں جو سیکڑوں کی تعداد میں آپ کا والہانہ استقبال کرنے کیلئے آئے ہیں۔ ہمارے شہریوں کو سلام، وہ اِن بد حال راستوں اور سڑکوں کی انتہائی ابتر شکل کے باوجود اِن پر سفر کرنے سے گریزاں نہیں، اگر یہ سڑکیں بہتر حالت میں ہوں تو نا صرف حادثات نہیں ہو نگے بلکہ لوگوں کو سفر میں بھی آسانی ہوگی اور گاڑیوں کی باڈی بھی محفوظ رہے گی۔ کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ سڑکیں دراصل ایکسرے ہیں اِن سڑکوں کا جب یہ بنی تھیں، لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ اِس ایکسرے میں فریکچر زیادہ نظر آرہے ہیں۔ ہم یہاںشہر کی بڑی بڑی مین روڈ کی حالت کا تذکرہ کررہے ہیں، اندرون علاقوں اور گلیوں محلوں کی سڑکوں کا تو کیا کہنے۔!!اِنہیں بیان کرنے کیلئے ہمیںموزوں الفاظ نہیں مل رہے۔ چلیں سڑکوں پر گہرے گڑھے تو دن میں نظر آہی جاتے ہیں لیکن جب رات ہو جائے اور اسٹریٹ لائٹس بند ہوں تو پھر یہ گڑھے نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں ، اب جو گاڑی اِن میں جانے سے بچ گئی وہ خوش قسمت اور جو اِن گڑھوں کی نذر ہوگئی وہ بدقسمتی کے زمرے میںآتی ہے۔ کاغذوں پر سڑکوں کی تعمیر کا ہنر اور فن صرف پاکستان ہی میں دیکھا گیا ہے ، سڑک بنے یا نہ بنے ،کاغذات پر بننی ضروری ہے اور اکثر و بیشتر جب صورتحال معلوم کی گئی کہ سڑک کی حالت اتنی خراب کیوں ہے اور یہ کیوں نہیں بن رہی تو متعلقہ افسران کاغذات اور فائلیں دکھا کر کہتے ہیں ابھی تو یہ سڑک 6 ماہ پہلے ہی بنی ہے اور کتنی بار بنوائیں۔۔!!! یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلانی سڑک کھنڈرات میں تبدیل ہوگئی ہے اور فلانی سڑک آثار قدیمہ یا موہنجوداڑو کی عکاسی کررہی ہے اور اگر ہم اِن کا شمار موجودہ سڑکوں کی حالت سے کریں گے تو اس میں مبالغہ آرائی نہیں ہوگی۔ شہروں میں سڑکوں کی حالت اگر اسی طرح رہی تو پھر دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ رک جائے گا۔

.
تازہ ترین