• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاناما کا ہنگامہ جاری ہے۔ البتہ اسلام آباد دھرنے کا ڈراپ سین ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسلام آباد کے لاک ڈائون کو یوم تشکر کے جلسے میں بدل کر یقیناً ایک دانشمندانہ اقدام کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے حکومت اور تحریک انصاف کی جانب سے کمیشن کے قیام کی تجویز پر رضامندی کے حوالے سے بالآخر پانامالیکس کے اہم اور حساس معاملے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کی استدعا پر عدالت عظمیٰ نے پاناما ایشو پر 3نومبر سے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا آغاز کردیا ہے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ پاناما لیکس پر عدالتی کمیشن کو سپریم کورٹ کے جج کے برابر اختیارات حاصل ہوں گے۔ علاوہ ازیں عدالت عظمیٰ نے فریقین سے فیصلہ من و عن تسلیم کرنے کی تحریری یقین دہانی بھی لے لی ہے۔ وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے بھی عدالت عظمیٰ کو یقین دلایا ہے کہ نوازشریف سپریم کورٹ کے کمیشن بنانے کے فیصلے سے متفق ہیں۔ سرکاری وکیل نے آف شور کمپنیوں کے معاملے پر عمران خان، ان کی ہمشیرہ، عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کے بارے میں عدالت میں دلائل دیئے ہیں کہ اُن کا بھی احتساب کیا جائے۔پاناما ایشو پر عدالت عظمیٰ میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، شیخ رشید اور تحریک انصاف کی جانب سے درخواستیں دائر کی گئی ہیں۔ اب عدالت عظمیٰ میں یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ آیا وزیراعظم کی فیملی نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک پیسہ بھجوایا ہے یا نہیں؟حیران کن امر یہ ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے عدالتی کمیشن کے قیام پر خاصی تاخیر سے کام لیا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے پاناما لیکس کا ہنگامہ جاری ہے۔ آخرکار سپریم کورٹ کو کیوں اس معاملے کو نمٹانا پڑا؟ پچھلے چھ ماہ سے اپوزیشن کے متفقہ ٹرمز آف ریفرنس کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرف سے تسلیم نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں ہے بلکہ پوری دال ہی کالی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن ناسور بن چکی ہے۔ ہر آنے والی حکومت یہ دعویٰ تو کرتی ہے کہ وہ ملک کو کرپشن سے پاک کرے گی مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ماضی کی حکومت کے دور میں بھی سرکاری سطح پر ہونے والی بدعنوانی پر قابو نہیں پایا گیا۔ اب پاناما اور بہاماس لیکس کے منصہ شہود پر آنے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا ہے۔ کچھ ممالک میں حکومتوں کو پاناما لیکس کی وجہ سے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ پاکستان میں بھی کرپشن کے خلاف سب سے پہلے جماعت اسلامی نے احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا۔ آج سے آٹھ ماہ قبل جب پاناما لیکس کا معاملہ ابھی منظر عام پر نہیں آیا تھا سینیٹر سراج الحق نے ملک گیر سطح پر کرپشن فری پاکستان تحریک کا اعلان کیا اور پنجاب سمیت پورے ملک میں کرپشن کے خلاف بڑے کامیاب اور بھرپورجلسے جلوس منعقد کئے۔ پاناما لیکس کے سامنے آنے کے بعد پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنے کی جماعت اسلامی کی تحریک میں ایک ولولہ تازہ پیدا ہوگیا ہے۔ اب یہ تحریک ہر پاکستانی کی آواز بن چکی ہے۔ تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں بھی اب کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔
پاناما اور بہاماس لیکس پر پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کی ضرورت ہے۔ اس وقت حکومت اور اُس سے باہر جن لوگوں نے بغیر ٹیکس ادا کئے غیرقانونی طور پر ملکی دولت کو بیرون ملک منتقل کیا ہے ان کاسخت اور بے رحم احتساب ہونا چاہئے۔ اسی طرح موجودہ اور ماضی کے جن حکمرانوں نے بنکوں سے قرضے معاف کروائے ہیں ان سے بھی ملکی خزانے سے لوٹی گئی ایک ایک پائی وصول کی جائے۔ احتساب سب کا اور بلاامتیاز ہونا چاہئے۔ کسی بھی بدعنوان فرد کو نہیں چھوڑنا چاہئے۔ اب کچھ ذکر ہوجائے جماعت اسلامی پنجاب کے سالانہ اجتماع کا! گزشتہ دنوں جماعت اسلامی نے خیبرپختونخوا اور پنجاب میں تاریخی اور شاندار پروگرام منعقد کئے۔28تا30 اکتوبر کو لاہور میں جماعت اسلامی نے سالانہ اجتماع میں بھی اپنے کارکنان اور پاکستانی قوم کو یہ پیغام دیا ہے کہ کرپشن کے خاتمے تک ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ بدعنوانی، مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل حل کرنے کے لئے ہر پاکستانی کو متحرک اور بیدار کرنا ہوگا۔ جماعت اسلامی پنجاب کا سالانہ اجتماع پروگرام اور انتظامات کے لحاظ سے مثالی تھا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد اور ناظم اجتماع ذکر اللہ مجاہد اجتماع کی کامیابی پر مبارک باد کے مستحق ہیں۔ سالانہ اجتماع کے پہلے روز امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ملک میں غیریقینی کی کیفیت ہے۔عوام پر مایوسی کے سائے منڈلارہے ہیں۔ ناظم اجتماع اور امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد نے شرکائے اجتماع کو ہدایات دیں۔ سالانہ اجتماع میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق، سابق امیر سید منور حسن، مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ، میاں مقصود احمد، حافظ محمد ادریس، راشد نسیم، اسد اللہ بھٹو، پروفیسر ابراہیم، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، سید علی گیلانی، سید صلاح الدین، ذکر اللہ مجاہد، صہیب الدین کاکاخیل، عبد الرحمان عباسی، زبیر گوندل، بلال قدرت بٹ، شیخ عثمان فاروق، مولانا جاوید قصوری اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کابھی کہنا تھا کہ جماعت اسلامی آئین وجمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات پریشان کن ہیں۔ سالانہ اجتماع کے دوران ملکی سیاسی صورتحال، امن وامان اور تعلیم کے حوالے سے قراردادیں بھی منظور کی گئیں۔ پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے جماعت اسلامی کے ممبران قومی اسمبلی کی کارکردگی کو سراتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ سمیت دیگر ارکان نے پارلیمنٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ سالانہ اجتماع کے دوسرے اور آخری روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے ملکی صورتحال کے حوالے سے خصوصی خطاب کیا۔ سالانہ اجتماع کے اختتام پر سینیٹر سراج الحق کی قیادت میں وحدت روڈ پر کرپشن مٹائو پاکستان بچائو عظیم الشان احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ احتجاجی ریلی سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کرپشن کی ہوشربا داستان ہے جس میں وزیراعظم کے بچوں کے نام بھی شامل ہیں۔ وزیراعظم کس طرح خود کو اس سے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں۔ ان کامزیدکہنا تھا کہ قو می سلامتی کے اجلاس کی خبر لیک ہونے پر پرویز رشید کی قربانی تودی گئی ہے مگر قومی سلامتی کے راز فاش کرنے والے اہم کرداروں کے نام بھی سامنے لائے جائیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ملک بھرمیں بڑے اجتماعات اور دیگر جماعتوں کے بھی احتجاج سے کرپٹ افراد کا احتساب ہوگا یا پھر معاملہ جوں کا توں ہی رہے گا؟


.
تازہ ترین