• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں 23اگست 1973ء کو چند مسلح افراد ایک بنک میں داخل ہوئے اور عملے کو یرغمال بنا لیا۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ان افراد کو بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے اور حکومت کی طرف سے واضح ہدایات دی گئی تھیں کہ کوئی ایسی حرکت نہ کی جائے جس سے یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں۔اس دوران بنک کی عمارت پر قبضہ کرنے والے مسلح افراد سے مذاکرات بھی ہوتے رہے لیکن 6دن کے بعد جب پولیس یرغمالیوں کو چھڑانے میں کامیاب ہوئی تو وہ اغواکاروں سے اس قدر گھل مل چکے تھے کہ انہیں پولیس کے قریب جاتے ہوئے عدم تحفظ کا احساس ہو رہا تھا۔ انہوں نے اغواکاروں کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ اگر ان مسلح افراد کو گرفتار کرکے جیل منتقل کیا جا رہا ہے تو ہمیں بھی ان کے ساتھ رکھا جائے۔جن افراد کو حبس بے جا میں رکھا گیا تھا ان میں سے ایک خاتون کی ٹانگ پر گولی لگی تھی جب کسی رپورٹر نے سوال کیا کہ تمہیں جن لوگوں نے گھائل کیا ہے وہ تمہارے ہمدرد کیسے ہو سکتے ہیں؟اس خاتون نے کہا ،بیشک وہ میرے مہربان ہیں اگر وہ چاہتے تو میرے سر میں یا سینے پر بھی گولی مار سکتے تھے تاکہ میں مر جاتی مگر ان کا مقصد مجھے جان سے مارنا نہیں تھا۔ ان افراد کو کرمینالوجی اور سائیکالوجی کے ماہرین کے پاس لے جایا گیا تو چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ کئی دن ایک ساتھ رہنے کے باعث انہیں اپنے اغواکاروں سے پیار ہو گیا ہے۔اس دن کے بعد سائیکالوجی اور کرمینالوجی کے مضمون میں ایک نئی اصطلاح ’’اسٹاک ہوم سینڈرومـــ ‘‘کا اضافہ ہو گیا ۔ان مغویوں میں سے ایک خاتون نے بعد میں ایک اغواکار سے شادی کر لی۔ماہرین کے نزدیک ’’اسٹاک ہوم سینڈروم‘‘ اس ذہنی خلل اور دماغی انتشار کا نام ہے جس کے زیر اثر مغویوں ،مقتولوں ،مظلوموں،مقبوضوں اور محبوسوں کو اپنے اغواکار ،قاتل،ظالم ،قابض اور حبس میں رکھنے والوں سے انس ہو جاتا ہے۔’’اسٹاک ہوم سینڈروم‘‘ کی اصطلاح قانونی معاملات میں پہلی مرتبہ امریکی خاتون پیٹی ہرٹ کے وکیل نے استعمال کی۔1974ء میں اس خاتون کو کیلی فورنیا کے جرائم پیشہ افراد نے اغواکیا لیکن وہ خاتون ان ڈاکوئوں سے اس قدر متاثر ہوئی کہ نہ صرف ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی بلکہ چوری کی ایک واردات میں ان کا ساتھ دیا اور پکڑے جانے پر اس کے وکیل نے عدالت میں بطور دفاع یہ بات کہی کہ اس کی موکلہ ’’اسٹاک ہوم سینڈروم‘‘ میں مبتلا ہے۔اس کے بعد جب بھی کہیں مقتولوں اور مظلوموں کو قاتلوں اور ظالموں سے پیار ہوتا ہے تو ’’اسٹاک ہوم سینڈروم ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
گاہے خیال آتا ہے ہم پاکستانی بھی رفتہ رفتہ ’’اسٹاک ہوم سینڈروم‘‘ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں قفس سے انس اور صیاد سے پیار ہوتا جا رہا ہے۔ ہمیں اپنے قاتلوں اور اغواکاروں سے محبت ہوتی جا رہی ہے۔پہلے تو ’’اسٹاک ہوم ‘‘ سینڈروم کی اصطلاح کراچی والوں کیلئے استعمال ہوتی تھی جو ایک لسانی جماعت کے عشق میں گرفتار تھے مگر اب تو یہ نفسیاتی عارضہ ملک گیر وبا کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔جھنگ میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایک کالعدم تنظیم کے حمایت یافتہ امیدوار کی کامیابی اسٹاک ہوم سینڈروم کی واضح مثال ہے۔
جھنگ کے ضمنی انتخابات میںکامیابی کے بعد اس کالعدم جماعت کے حامیوں کا بیانیہ یہ ہے کہ اگر کراچی میں ایم کیو ایم الیکشن جیت سکتی ہے ،بھارت میں مودی وزیراعظم بن سکتا ہے ،امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہو سکتا ہے تو جھنگ میں مسرورنواز جھنگوی کی کامیابی پر بعض لوگوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں۔جمہوریت کا راگ الاپنے والے اب عوام کے فیصلے کو خوشدلی سے قبول کریں۔باالفاظ دیگر اس استدلال کی روشنی میں متذکرہ بالا تمام افراد کے انتخاب کی توثیق و تائید کی جا رہی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ آئندہ بھی جو شخص ووٹ لیکر آئے گا ۔
اس کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا۔اگر عوامی تائید و حمایت سے منتخب ہو کر آنے والے نوازشریف چاہیں تو اپنے وژن کے مطابق لبرل ،روشن خیال اور ترقی یافتہ پاکستان بنائیں ،کسی کالعدم جماعت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔سندھ حکومت جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئی ہے اگر اس نے قانون بنایا ہے کہ 18سال سے کم عمر افراد اسلام قبول نہیں کر سکیں گے تو اس کے مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا ۔اگر جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی وفاقی یا صوبائی حکومت نیشنل ایکشن پلان کے تحت یہ فیصلہ کرے کہ کفر کے فتوے لگانے والے جیلوں میں ڈالے جائیں گے تو اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے اور کوئی بھی شخص خواہ وہ رُکن اسمبلی ہی کیوں نہ منتخب ہو چکا ہو ،اگر اس بات کا ثبوت میسر ہو کہ وہ کسی مسلک پر کفر کے فتوے لگاتا ہے تو اسے بلا تاخیر گرفتار کیا جائے،کیوں حضور ! یہی تعبیر اور یہی منشا ہے ناں آپ کے مضبوط استدلال کی؟
اگر یہ تاویل درست ہے کہ جو جیسے تیسے بھی الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ،اسے عوامی نمائندگی کی سند دیدی جائے تو پھرسیاستدانوں پر چور ،ڈاکو اور لٹیرے کی پھبتیاں کیوں کسی جاتی ہیں؟اس بات پر شور و غوغا کیوں کیا جاتا ہے کہ فلاں تو اشتہاری ہے ،فلاں کے خلاف مقدمات ہیں،فلاں امیدوار 62,63پر پورا نہیں اترتا؟سوال یہ نہیں کہ کالعدم جماعت کا امیدوار الیکشن کیسے جیت گیا ،سوال تو یہ ہے کہ ایک کالعدم جماعت کے امیدوار کو الیکشن لڑنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟اگر یرغمالی اور مغوی ’’اسٹاک ہوم سینڈروم‘‘ جیسے کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوں اور کسی علت یا جبلت کے باعث انہیں اغواکاروں سے پیار ہو جائے تو کیا انہیں ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟اگر یہی حالت رہی اور ’’اسٹاک ہوم سینڈروم‘‘ پھیل گیا تو تکلف برطرف ،کل طالبان ،القاعدہ اور داعش جیسی کالعدم جماعتوں کے امیدوار بھی میدان میں ہوں گے اور پوری قوم راز الہ آبادی کا یہ شعر گنگناتے ہوئے ووٹ ڈال رہی ہو گی:
آشیاں جل گیا،گلستاں لٹ گیا
ہم قفس سے نکل کر کدھر جائیں گے
اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملی تو مر جائیں گے

.
تازہ ترین