• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی سیاست میں خوشگوار تبدیلیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف نے پہلے سڑکوں کی بجائے عدالتوں کا رخ کیا اور اب وہ پارلیمنٹ میں بھی واپس آچکی ہے۔ تحریک انصاف کا پارلیمنٹ میں واپسی کا فیصلہ خوش آئند امر ہے اس سے یقیناً جمہوریت اور ملکی سیاست پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ’’گردش ایام‘‘ کے قارئین کو یاد ہو گا کہ انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ اگست 2014کے طویل دھرنوں اور پھر 2نومبر کے حالیہ دھرنے سے کچھ نہیں حاصل ہو گا اور جمہوری سسٹم چلتا رہے گا۔ جذباتی انداز میں کیے گئے فیصلے ملک و قوم کے مستقبل کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کامعاملہ ابھی زیر سماعت ہے۔ موجودہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی مدت ملازمت مکمل ہونے والی ہے۔ اس لئے اب پاناما لیکس پر عدالت عظمیٰ میں سماعت اگلے ماہ جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی ہوچکی ہے۔ اب نئے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی یا کسی سینئر جج کی سربراہی میں اس اہم معاملے پر نیا بینچ تشکیل دیاجائے گا جو آئندہ اس اسکینڈل کی سماعت کرے گا۔ عدالت عظمیٰ میں گزشتہ سماعت کے موقع پر جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق اور دیگر درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ کے استفسار پر عدالتی کمیشن کی تشکیل پر آمادگی ظاہر کی تھی مگر تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے عدالت سے کہا تھا کہ اگر پاناما لیکس پر عدالتی کمیشن بنایا گیا تو تحریک انصاف اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گی اور عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ ایک جمہوری معاشرے میں یہ طرز عمل کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کرپشن پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ ہے اور جب تک کرپشن پر قابو نہیں پایا جائے گا اُس وقت تک ملک ترقی و خوشحالی کی جانب نہیں بڑھ پائے گا۔ پاناما لیکس کے ایشو پر جماعت اسلامی اور تحریک انصاف تو سنجیدہ دکھائی دے رہی ہیں مگر لگتا ہے پیپلزپارٹی اس معاملے پر محض اپنی سیاست کو چمکا رہی ہے اور پوائنٹ اسکورنگ کر کے پاکستانی قوم کو بیوقوف بنا رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کو اندازہ ہے کہ اگر پاناما لیکس پر واقعی احتساب ہوتا ہے تو پھر سوئس اکائونٹس کا معاملہ بھی جلد اٹھے گا۔ جماعت اسلامی نے موجودہ رواں سال کے شروع میں جب کرپشن فری پاکستان مہم کا آغاز کیا تو اُس وقت اسے دیوانے کی بڑھک سمجھا گیا لیکن جب آٹھ ماہ قبل پاناما لیکس کابڑا اسکینڈل سامنے آیا تو بعدازاں تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتیں بھی کرپشن کے خلاف میدان عمل میں آ گئیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر حکمران خاندان کے بیانات میں تضاد واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم نوازشریف کی فیملی نے قومی دولت ناجائز طور پر ملک سے منتقل نہیں کی تو پھر انہیں آخر ڈر کس بات کا ہے۔ ان کا موقف بار بار تبدیل کیوں ہو رہا ہے۔ پاناما لیکس کا کیس اب عدالت میں ہے۔ اب عدالت جو فیصلہ کرے گی اُس کو حکومت اور اپوزیشن دونوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اگر وزیر اعظم قصوروار ثابت ہوئے تو مسلم لیگ (ن) اپنا کوئی نیا امیدوار وزیراعظم کے لئے لے آئے گی اور یوں کوئی نیا سیاسی بحران جنم نہیں لے گا۔ تحریک انصاف اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کو بھی اب اگلے 2018کے الیکشن کی تیاری کرنی چاہئے۔ ریاستی اداروں پر اعتماد کر کے ہی معاملات کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اگر میں نہ مانوں کی رٹ لگا دی جائے تو مسائل کا حل ممکن نہیں ہو پاتا کاموقف سامنے آرہا ہے۔
اب کچھ ذکر ہو جائے وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کے زیر اہتمام لاہور میں ہونے والی بین الاقوامی سیرت النبیؐ کانفرنس کا! 12ربیع الاول کے روز وفاقی و زارت مذہبی امور نے اس بار لاہور میں انٹرنیشنل سیرت کانفرنس کا انعقاد کر کے یقیناً قابل تحسین اقدام کیا ہے۔ سیرت کانفرنس کے اختتام کے بعد میری وفاقی مذہبی امور سردار محمد یوسف، اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر علامہ علی محمد ابوتراب اور حافظ سجاد قمر سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ یہ تینوں حضرات ہی عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس کے روح رواں تھے۔ وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے بتایا کہ سیرت کانفرنس میں 13اسلامی ملکوں سے جید علمائے اکرام بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے ہیں۔ سردار محمد یوسف کے وفاقی وزیر بننے کے بعد سے مذہبی امور کی وزارت خاصی متحرک اور فعال نظر آ رہی ہے۔ قبل ازیں مذہبی امور صرف حج تک محدود تھی۔ امر واقع یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وزارت مذہبی امور کو بہت فعال ہونا چاہے کیونکہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری اسی وزارت پر عائد ہوتی ہے لیکن گزشتہ حکومت کے ادوار میں ایسا نہیں ہو سکا۔ سچی بات یہ ہے کہ سردار محمد یوسف کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ انہوں نے اپنی وزارت کے دور میں علماء و مشائخ کونسل کا قیام، نظام صلوٰۃ، قرآن کمپلیکس کا قیام اور سیرت کانفرنس کا انعقاد کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اگر کوئی وفاقی وزارت ڈلیور کرنا چاہے تو کوئی رکاوٹ اُس کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔ پورے ملک سے تمام مسالک کے علماء ومشائخ پر مشتمل پاکستان میں پہلی دفعہ قومی علماء و مشائخ کونسل کا قیام ایک غیر معمولی کام ہے۔ لاہور میں ہونے والی بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں ترکی سے وزیر مذہبی امور مہمت گورمیز اور نیپال کے وزیر مملکت علی عبدالوحید بھی شریک ہوئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی اپنے موجودہ دور حکومت میں پہلی دفعہ لاہور کی سیرت کانفرنس میں شرکت کی۔ وفاقی وزیر سردار یوسف نے ملاقات کے دوران یہ بھی بتایا کہ انہوں نے ابھی اسلام آباد کی سطح پر نظام صلوٰۃ کا اجرا کیا ہے۔ اس مقصد کے لئے تمام مسالک کے علماء پر مشتمل دس رکنی کمیٹی نے متفقہ کیلنڈر بھی تیار کیا ہے۔ ایک وقت میں اذان اور ایک وقت میں نماز کا آغاز اسلام آباد سے کیا گیا ہے۔ یہ قابل ستائش اقدام ہے۔ اس سے ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ اگلے مرحلے میں پورے پاکستان میں یہ نظام لایا جائے گا۔ اس سلسلہ میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی وزارت مذہبی امور کو تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔

.
تازہ ترین